پاکستان نے 140 کے قریب آئی پی پیز کو غیراستعمال شدہ بجلی کی مد میں 19 سو ارب کے لگ بھگ رقم ادا کی ہے۔ رواں مالی سال میں کیپیسٹی پیمینٹ بڑھ کر 28 سو ارب ہوگئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کیپسییٹی پیمنٹ کا بوجھ مزید کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دوسرے مرحلے میں 2 درجن کے قریب آئی پی پیز میں سے بعض کے معاہدے یا تو منسوخ ہوں گے یا پھر ان کی فی یونٹ بجلی کی قیمت پر نظرثانی کر کے انہیں کم کرایا جائے گا۔
تمام تر تنقید کے باجود ریاست پاکستان انڈیپینڈینٹ پاور پروڈیسرز سے ماضی میں کیئے گئے نقصان دہ معاہدوں پر نظرثانی یا انہیں منسوخ کرانے کے لیے کوشاں ہے، 1990 کی دہائی میں لگائی گئی 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے منسوخ ہوچکے جس سے ملک کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں سالانہ 60 ارب روپے کی بچت ہوگی، ان آئی پی پیز میں حب پاور یا حبکو، لال پیر، روچ ، اٹلس اور صبا کے بجلی گھر شامل ہیں۔
بظاہر 60 ارب روپوں کی یہ سالانہ بچت اتنی زیادہ نہ لگے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اس بوجھ کو کم کرنے کی ابتدا ہے۔
کیپیسیٹی پیمینٹ کے بوجھ کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے 140 کے قریب آئی پی پیز کو نا استعمال شدہ بجلی کی مد میں 1900 ارب کے لگ بھگ رقم ادا کی۔
رواں مالی سال میں کیپیسٹی پیمینٹ بڑھ کر 2800 سو ارب ہو گئی ہیں ، جس کی قیمت عام پاکستانی سے لیکر اس ملک کے صنعتکار، تاجر اور معیشت سے جڑا ہر سیکٹر ادا کررہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سی پیک کے تحت لگائی گئی تیرہ آئی پی پیز کو فی الوقت چھوڑ کر باقی تمام کے ساتھ معاہدوں پر کہیں کم اور کہیں زیادہ نظرثانی ہوگی،
ذرائع کے بقول جو آئی پی پیز کے ساتھ گفت و شنید میں براہ راست شامل ہے، یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ جن آئی پی پیز کی بجلی کی قیمت فی یونٹ 40 روپے سے زیادہ ہے، انہیں کم کرایا جائے گا، ان میں حسین داؤد گروپ، دانش اقبال کا گل احمد گروپ اور رومان ڈار کا ماسٹر گروپ سرفہرست ہیں ۔
کئی آئی پی پیز جن کی بجلی کی فی یونٹ قیمت 40 روپے سے کم اور 32 سے 33 روپے سے زیادہ ہے ان سے بھی معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے، لبرٹی پاور از خود فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کرنے کا پہلے ہی اعلان کرچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق تیسرے مرحلے میں حکومتی اور فوجی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے بجلی گھروں کے معاہدوں کی بھی باری آئے گی، اور ان کی کیسپسیٹی پیمنٹ کی بلند شرح کو بھی کم کرایا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے ریاست پاکستان بعض معاہدوں پر نظرثانی کرانے میں اس لیے کامیاب رہی کہ بعض بجلی گھر مالکان ایک عرصے سے اپنے اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے، جس میں بجلی گھروں کی دیکھ بھال کے اخراجات سے لیکر فرنس آئل کے استعمال کے اعداد و شمار میں مبالغہ آرائی اور سیکورٹی اور انتظامی اخراجات سب میں ہیر پھیر تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے ماضی میں کیے گئے معاہدوں میں شفافیت نہیں تھی، دلچسپ بات یہ کہ آئی پی پیز کو تو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن ماضی کی حکومتوں کی طرف سے جن سیاست دانوں اور بیورکریٹس نے یہ معاہدے کیے ان کا کوئی احتساب نہیں ہوا،
ان میں سے کئی سیاست دان یا ان کے خاندان کے افراد آج بھی برسراقتدار ہیں، لیکن کم از کم یہ بات مثبت ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے حکومت کے مالی بوجھ میں رفتہ رفتہ کمی ہوگی جس سے اگے چل کر بجلی کی قیمتوں میں بھی کٹوتی کا امکان ہے ۔