مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7ارکان پر مشتمل ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کریگی،
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا، آئینی عدالت کا فیصلہ کہیں چیلنج نہیں ہوسکے گا،
خصوصی کمیٹی کے دوسرے ان کیمرا اجلاس میں آئینی ترامیم پر اتفاق رائے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی،اجلاس میں جے یو آئی نے بھی اپنا مسودہ پیش کر دیا،
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں حکومتی جماعتیں ایک پیج پر آگئی ہیں، جے یو آئی نے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے آئینی عدالت کی جگہ بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے،
مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہونگے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیاکہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا۔ دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے دو، دو ارکان لیے جائینگے، اسکے علاوہ صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہوگی۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی اہلیت رکھنے والے کیلئے نام پرمشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدر کو بھجوائیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کرینگے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیئے جائینگے۔
مجوزہ ترمیم کے تحت جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائیگی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دینگے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سینئر ترین جج کی بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر3سینیئر ترین ججز میں سے کیا جائیگا۔