دو نجی اداروں نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک اور سوشل شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا نے ایسے اشتہارات کو چلانے کی منظوری دی جن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز زبان اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا گیا تھا۔
برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق بھارت کے انڈیا سول واچ انٹرنیشنل (آئی سی آئی ڈبلیو) اور ایکو نامی اداروں نے میٹا کو جانچنے کے لیے انہیں 22 اشتہارات دیے، جن میں سے کمپنی نے ابتدائی طور پر 14 اشتہارات کی منظوری دی اور بعد ازاں مزید تین اشتہارات کی بھی منظوری دی۔
دونوں اداروں نے جان بوجھ کر ایسے اشتہارات تیار کیے جن میں خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت، انہیں ہجوم کے ہاتھوں قتل کرنے سمیت ہندووں کی بالادستی قائم کرنے جیسا مواد شامل کیا گیا تھا۔
دونوں کمپنیوں نے انگریزی، ہندی، گجراتی، بنگالی اور کنڑہ زبانوں میں میٹا کے ہی ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز اشتہارات تیار کیے تھے۔
دونوں کمپنیوں نے ایک اشتہار میں بھارت کے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) مخالف سیاست دان کو پاکستانی جھنڈا تھام کر ہندووں کے قتل کرنے کے بیان دینے کا اشتہار بھی بنایا اور اسے بھی میٹا نے منظور کیا۔
علاوہ ازیں جن اشتہارات کو منظور کیا گیا ان میں سے مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں سے تشبیہ دی گئی اور انہیں جلانے کے لیے ہندووں کو اکسایا گیا جب کہ ایک اشتہار میں مسلمانوں کو حملہ اور قابض قرار دے کر انہیں جلانے کی باتیں تک کی گئیں اور میٹا نے ایسے اشتہارات کی بھی منظوری دی۔
دونوں اداروں نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ جب انہوں نے بھارتی انتخابات کے پہلے مرحلے شروع ہونے کے بعد میٹا کو اشتہارات دیے تو کمپنی نے انہیں منظور کیا لیکن دونوں اداروں نے اشتہارات کو چلانے سے قبل انہیں ڈیلیٹ کردیا، کیوں کہ اداروں کا مقصد میٹا کی شفافیت کو جانچنا تھا۔
میٹا کی جانب سے مسلم اور پاکستان مخالف اشتہارات کی منظوری دیے جانے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد کمپنی کی پالیسی کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ بھانڈا پھوٹ چکا ہے کہ میٹا کا نظام نفرت انگیز مواد کو نہیں پکڑ سکتا۔