وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے دوران گولی چلانے، حکم دینے والوں کو جواب دینا پڑے گا۔
پشاور میں ڈی چوک شہدا اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے وہ عظیم شہدا جنہوں نے اپنے ملک کے لیے قربانی دی انہیں اور ان کے خاندان کو سلام پیش کرتا ہوں، ان شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بزدل رہنما سیاست دان قانون کو روندتے ہیں، فرعون نے بھی تکبر کیا تھا، تہمارا انجام قریب ہے، تم اپنے انجام کو جلد پہنچو گے۔
علی امین گنڈاپور کا مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گولی کیوں چلائی، جس نے گولی چلائی اور جس نے حکم دیا اس کو جواب دینا پڑے گا، تم کو اللہ تعالی عبرت کا نشان بنائے گا۔یہ بچے قوم کے بچے ہیں تمھیں چین نہیں آئے گا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ گولی چلانے والوں کو دونوں جہاں میں سکون نہیں آئے گا، ان سے ایک سوال کیا جائے گا کہ کیوں گولی چلائی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ لعنت ہے تمھارے رزق پر، تمہاری ڈیوٹی اس ملک کے ساتھ غداری ہے، یہ حق، سچ انصاف اور امر بالمعروف کی تحریک ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ جب تک قانون اور انصاف کا نظام نہیں آئے گا ہم اپنے سینے پیش کریں گے، کل یہ گولی آپ کے بچے کو بھی لگے گی، اسلام اور سچ کا بول بالا ہوگا، تمام شہدا کو اللہ آجر دے گا،شہدا کے فیملی کو اللہ صبر دے۔
گزشتہ روز پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ہم اگلی دفعہ پُرامن والی بات نہیں کریں گے، جب ہم اسلحہ لے کر نکلیں گے تو پھر دکھائیں گے کہ بھاگتا کون ہے،کس میں کتنا دم ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ عمران خان خدا کا واسطہ ہے، پھر یہ پرُامن کا لفظ چھوڑ دینا، پھر ہم پُرامن نعرے کے بغیر نکلیں گے، پھر نہتے پر جو گولی چلاتا ہے، اپنے لوگوں کی زندگی بچانے کےلیے ہمیں ان کو روکنا پڑتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے 5 دسمبر کو اسلام آباد میں 26 نومبر کے احتجاج کے ’شہدا کو خراج عقیدت پیش‘ کرنے کے لیے پشاور میں ’عظیم الشان اجتماع‘ کا اعلان کیا تھا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ ہم پشاور میں شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عظیم الشان اجتماع منعقد کریں گے، جس میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کے لیے دی جانے والی فائنل کال کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اسلام آباد کے لیے احتجاجی مارچ کیا گیا تھا، تاہم 26 نومبر کو مارچ کے شرکا اور پولیس میں جھڑپ کے بعد پی ٹی آئی کارکن وفاقی دارالحکومت سے ’فرار‘ ہوگئے تھے، اس کے بعد علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے متضاد اعداد و شمار پیش کیے تھے۔
2 دسمبر کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ سیکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں، ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے۔
8 دسمبر کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما عمر ایوب نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد میں پارٹی کےحالیہ پر احتجاج کے دوران نہتے کارکنوں پر گولیاں چلائی گئیں اور ہمارے 12 کارکن جاں بحق ہوئے جب کہ 200 لاپتا ہیں۔