google.com, pub-3199947851844297, DIRECT, f08c47fec0942fa0 فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر اقوام متحدہ بالکل بے بس: نواز شریف - UrduLead
پیر , دسمبر 23 2024

فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر اقوام متحدہ بالکل بے بس: نواز شریف

فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کا آغاز ہو گیا ہے۔

مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ایم پی سی میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف بھی شریک ہیں۔

اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمٰن، حافظ نعیم الرحمٰن، مولانا فضل الرحمٰن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی بھی ایم پی سی میں شریک ہیں۔

اس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہ دن دیکھیں ہیں جب بھٹو صاحب کے دور میں یہاں پی ایل او کے دفتر ہوا کرتے تھے اور یاسر عرفات آتے جاتے رہتے تھے، میں خود یاسر عرفات سے بے نظیر بھٹو کے ہمراہ ملاقات کر چکا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے جس کے نتیجے میں 41 ہزار 800 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صحت اور تعلیم کے انفرا اسٹرکچر، عوامی املاک کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیل نے اپنی اس سفاکانہ مہم میں مزید پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانہ شروع کردیا ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ اپنے ان اقدامات سے اسرائیل ناصرف خطے کے امن، استحکام اور سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ اس کے اقدامات سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں اشتعال انگیزی میں اضافے پر شدید تشویش ہے اور وہ فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی سفاکیت اور جارحیت کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین اور لبنان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور بہادر شہدا کے لیے دعاگو ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور ایسا کر کے وہ استثنی کے کلچر اور عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے عمل کو فروغ دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین اور لبنان کے عوام آزادانہ طور پر ڈر اور خوف کے بغیر زندگی بسر کرنے کے مستحق ہیں لہٰذا عالمی برادری اشتعال انگیزی میں کمی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور تنازع مزید نہ پھیل سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جارحیت کے خلاف تمام عالمی فورم پر آواز اٹھاتے ہوئے فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر ممکن نہیں، پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کو سپورٹ اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہے گا جو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان یروشلم سمیت مقبوضہ عرب سرزمین سے اسرائیل کا مکمل انخلا اور حق خودارادیت کے مکمل اظہار کے لیے فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پالیسی پر قائم ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔

اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غریب فلسطینیوں پر ظلم کا بازار گرم ہے اور کوئی عسکری طاقت نہ ہونے کے باوجود ان پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے یہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے بچوں کی خون آلود لاشیں اور شہروں کو کھنڈر میں بدلتے دیکھ کر دل تڑپ جاتا ہے، جس طرح سے معصوم بچوں کو والدین کے سامنے شہید کیا جاتا ہے، ماؤں کی گود سے بچوں کوشہید کیا جاتا ہے، اس طرح کی سفاکیت ہم نے آج تک نہیں دیکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا نے عجیب و غریب قسم کی پالیسی اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ اسے انسانی مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ بہت بڑا طبقہ اسے مذہبی مسئلے کے طور پر سوچتا، سمجھتا اور بیان کرتا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ جس طرح سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ بالکل بے بس بیٹھی ہوئی ہے اور انہی کی منظور کردہ قراردادوں پر کوئی عمل نہیں ہو رہا، افسوسناک بات یہ ہے کہ ان قراردادوں کے باوجود یہ صورتحال جاری ہے، وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سارا کام کررہے ہیں، انہیں پروا نہیں ہے کہ کون سی قرارداد منظور کی ہے اور لگتاہے کہ اقوام متحدہ کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ دنیا کی بہت بڑی باڈی ہے جو اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی، کشمیر پر بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا، تو ایسی اقوام متحدہ کا کیا فائدہ جو دنیا کو انصاف نہ دے سکے، جہاں ظلم ہو اسے روک نہ سکے اور ناانصافی کرنے والے دندناتے پھریں۔

ان کا کہنا تھاکہ فلسطینیوں کا خون ضرور رنگ لا کر رہے گا، میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے شہباز شریف نے جو روڈ میپ دیا ہے اس پر غوروخوض ہونا چاہیے اور اسلامی ممالک کو اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں، اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے اور اگر اس طاقت کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے، آج اس طاقت کا استعمال کرنے کا موقع ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی پالیسی بنانی پڑے گی ورنہ ہم اسی طرح ہم بچوں کا بھی خون ہوتے دیکھتے رہیں، ماؤں، بہنوں اور والدین کو بھی شہید ہوتے دیکھتے رہیں گے اور کچھ نہیں کر سکیں گے، آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کیوں دندناتا پھرتا رہتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے عالمی طاقتیں ہیں جن کی اہمیت ہے لہٰذا ان عالمی طاقتوں کو سوچنا چاہیے کہ کب تک وہ اسلامی دنیا اور فلسطین کے لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی سفرشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا کے ساتھ رابطہ کریں اور اپنا موثر کردار ادا کریں کیونکہ پورے پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ کن اقدام کریں۔

فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن

کثیر الجماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔

انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلیے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا ، جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، آج جنگ ایران اور لبنان، یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔

سربراہ جمیعت علمائے اسلام کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جاسکے، ہمیں اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کا جو واضح مسئلہ فسلطین پر 1947 سے اور اس سے قبل جو واضح مؤقف تھا اسے اپنا کر دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے جس کے نتیجے میں تقریباًً 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور 10 ہزار افراد ملبے تلے دب چکے ہیں جبکہ 42 سے 43 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 173 صحافی بھی اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تعداد 900 کے قریب ہے اور 128 زیر حراست ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری مظالم کی وجہ سے اسکولوں، ہسپتالوں اور حتیٰ کے چرچز کو بھی تباہ کیا گیا ہے، اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہمیں اس کثیر الجماعتی کانفرنس سے ایک فلسطین کی آزاد ریاست کا واضح پیغام دینا چاہیے، دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں پاکستان کا ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، آج اگر فسلطینی بچوں کی لاشیں ان بموں سے پگھل رہی ہیں تو کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، 2019 سے 2023 کے عرصے کے دوران امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی ایک وسیع تاریخ ہے اور وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہتا ہے، حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے، ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا آفس قائم ہونا چاہیے۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کےساتھ کھڑے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی کی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو زراداری نے کہا وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لیےتیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس حملے سے قبل امن اور سکون تھا اور ایک دن فلسطین کی عوام جاگ اٹھی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابض فورسز پر حملہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے تین چار نسلوں تک اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے، پوری دنیا ایک طرف اور فلسطین کے نہتے معصوم بچے، جوان بوڑھے دوسری طرف، پوری دنیا نے دیکھا کہ یرغمالیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک بھی یرغمالی نہ ہو لیکن اکتوبر 7 کے بعد جو یرغمالی ہیں ان کی بھی بات کی جائے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جو اسرائیل ریاست نے بچوں اور بوڑھوں کو تین، چار نسلوں تک ان کی جیلوں میں یرغمال رکھا اور ان پر مظالم ڈھائے تو یرغمالیوں کے ساتھ ان کی بھی بات کی جانی چاہیے۔

About Aftab Ahmed

Check Also

ملک کاروبار دوست نہیں رہا: پاکستان بزنس فورم

پاکستان بزنس فورم نے سال 2024 کو بزنس کمیونٹی اور عوام کے لیے مشکل ترین …