ایف بی آر نے ٹیکس آمدنی میں اضافے کیلیے حکومت کو انکم ٹیکس میں اضافے کی 3 تجاویز دے دیں۔
ایف بی آر کی تجویز کے مطابق حکومت ٹیکس انکم بڑھانے کیلیے مینوفیکچررز سے لے کر ریٹیلرز تک پوری ٹریڈنگ چین پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے،
اگر وزاعظم شہباز شریف متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے دبائو کو جھیل جاتے ہیں اور قومی اسمبلی سے اس ٹیکس کو منظور کرالیتے ہیں تو اس طرح حکومت اربوں روپے کا ٹیکس جمع کرسکے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ انکم ٹیکس نان فائلرز پر عائد کیا جائے گا، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر معیشت کا پانچواں حصہ ہیں، لیکن یہ ٹیکس صرف 24 ارب روپے ( 0.001 فیصد ) ادا کرتے ہیں،
آر آر ایم سی کی تجویز کے مطابق اگر تمام ہول سیلرز، ڈسٹریبیوٹرز اور ریٹیلرز پر 1 فیصد ٹیکس عائد کردیا جائے تو حکومت کم از کم 400 ارب روپے جمع کرسکتی ہے۔
تاہم ایف بی آر نے اپنی تجویز میں درآمدات کو شامل نہیں کیا ہے، لیکن اگر درآمدات کو بھی شامل کرلیا جائے تو حکومت 2.5 فیصد انکم ٹیکس کے ذریعے 1 ہزار ارب روپے جمع کرسکتی ہے،
اس کے علاوہ ایف بی آر نے تجارتی درآمد کنندگان کے علاوہ ہر طرح کی درآمدات پر ودہولڈنگ ٹیکس میں 1 فیصد اضافے کی تجویز بھی دی ہے۔
ایف بی آر نے ٹھیکیداروں، پروفیشنل سروس پرووائڈرز اور کھلاڑیوں پر انکم ٹیکس میں اضافہ کرنے کی تجویز بھی دی ہے، رواں مالی سال کے دوران پروفیشنلز اور کنٹریکٹرز نے سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرایا ہے، جبکہ امپورٹ تیسرے نمبر پر رہی ہیں، اسی طرح تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے چوتھے نمبر پر رہا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت ایف بی آر کیلیے ٹیکس کا ہدف 40 فیصد اضافے کے ساتھ 13 ہزار ارب روپے مقرر کرنے پر غور کر رہی ہے، جس کیلیے 2 ہزار ارب روپے کے مزید ٹیکسز لگانے کی ضرورت ہوگی،
درآمدات پر اس وقت 1 سے 4 فیصد تک ٹیکس عائد ہے، جو ایف بی آر کی تجویز پر عمل کرنے کی صورت میں بڑھ کر 2 سے5 فیصد تک ہوجائیں گے، جبکہ نان فائلرز، فائلرز کے مقابلے میں ڈبل ٹیکسا ادا کریں گے۔
رواں مالی سال کے دوران حکومت نے درآمدات سے 349 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے، جو کہ 31 فیصد (82 ارب روپے) زائد ہیں، یہ انکم ٹیکس سے حاصل ہونے والے محصولات میں تیسرا بڑا سیکٹر ہے۔