بیرک گولڈ کی جانب سے ریکوڈک پراجیکٹ میں اپنے حصص فروخت کرنے سے انکار کے بعد سعودی عرب اور پاکستان نے اصولی طور پر ڈیل پر اتفاق کرلیا ہے اور اس سودے بازی کے تحت پاکستانی حکومت اپنے 15 فیصد حصص سعودی سرمایہ کار کو بیچے گی۔
اس ڈیولپمنٹ کے نتیجے میں پاکستان کا ریکوڈک پراجیکٹ میں حصہ 50 فیصد سے گھٹ کر صرف 35 فیصد رہ جائے گا۔
ان 35فیصد میں سے بھی بلوچستان حکومت کا حصہ 25فیصد ہے جو برقرار رہے گا جبکہ وفاقی حکومت کا حصہ 25فیصد سے گھٹ کر10فیصد رہ جائے گا۔
اس پیشرفت کے ساتھ ہی پاکستان کے مجموعی حصص بھی 50 فیصد سے گھٹ کر 35 فیصد رہ جائیں گے اور یوں پاکستان اس منصوبے کا اقلیتی حصہ دار بن کر رہ جائے گا۔
بلوچستان کو ادائیگی کا میکنزم بنانے اورلیویز ہائیر کرنیکا کام ریکوڈک مائننگ کمپنی کریگی، سعودی عرب نے اس سرمایہ کاری کےلیے مستقل ثالثی عدالت تک رسائی کا مطالبہ بھی منوالیا،
اعلیٰ عہدیدار نےبتایا ہے کہ ایس آئی ایف سی نہ ہوتی اس منصوبے کےلیے تعین قدر کا کام ناممکن تھا، ملک میں سرمایہ کاری کی صورتحال ابتر ہے اور یہ 1972 کے بعد نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اس حوالے سے جب حکومت پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے گفتگو کی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس مخصوص کمپنیوں کے ساتھ جائنٹ وینچرز کرنےکا تجربہ ہے اس میں سے ایک کیس ’ پی ٹی سی ایل‘ کا ہے اور دوسرا بینکنگ کے شعبے کا ہے
حکومت شعوری طور پر سمجھتی ہے کہ ریکوڈیک کے منصوبے میں اپنے حصص کو اقلیتی حصص میں تبدیل کرلینے سے کوئی خاص ’ عملی مسائل‘ پیدا نہیں ہوں گے۔
ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریکوڈک کے موجودہ انتظامات میں باراک گولڈ پابند ہے کہ باراک گولڈ کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کریگا بالخصوص سرمایہ کاری کے حوالے سے وہ کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کرسکےگی۔ کسی فوری ضرورت کی صورت میں پاکستان ان شقوں کو اٹھانے کا اہل ہوگا۔
جی ڈی پی کی شرح کے حوالے سے سرمایہ کاری کا گھٹتا ہوا حصہ 1972 کے بعد سے رواں مالی سال میں ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پاکستان میں کچھ حلقوں میں توقع کی جارہی ہے کہ ریکوڈک میں سعودی عرب کے ساتھ سودے بازی سے سرمایہ کاری کا ماحول بہتر ہوسکتا ہے۔
دی نیوز کے ساتھ نام نہ بتانے کی شرط پر گفتگو کرتےہوئے دو اعلیٰ عہدیداروں نے بتایا کہ سعودی عرب سے اس ڈیل کا اعلان آئندہ چند ہفتوں میں کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب ریکوڈک کے منصوبے میں شریک ہوگا اور وہ ریکوڈک کے مزید بلاکس میں اپنی سرمایہ کاری بھی بڑھائیں گے۔
ایس آئی ایف سی کی مدد سے جو کنسلٹنٹ ہائیر کیا گیا تھا اس نے اپنی رپورٹ جمع کرادی ہے جس نے ریکوڈک کے منصوبے کے حصص فروخت کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ اگر ایس آئی ایف سی نہ ہوتی تو اس منصوبے کےلیے تعین قدر ناممکن ہوجاتا۔
خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ باہمی سرمایہ کاری معاہدہ اس کا ایک اہم جز ہے جس کے تحت فریقین کو بین الاقوامی ثالثی کا اختیار ملتا ہے۔
وفاقی کابینہ نے نگران دورحکومت میں ہی ایف ٹی اے اور بی آئی ٹی کی توثیق کر دی تھی جس کے مطابق جی سی سی کی توثیق کا انتظار کیاجارہا ہے ۔
عہدیدار نے یہ بی بتایا کہ آرمی کے سربراہ جرنیل عاصم منیر نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا ہے اس کے بعد سعودی وزیر بھی پاکستان آیا ، ان تبادلوں سے اور اعلیٰ سطح کے رابطوں سے کئی ارب ڈالر کے سرمایہ کاری کے اس سودے کو آگے بڑھانے کا موقع ملا۔
ایف ٹی اے کی توثیق کے تحت اور اس کے ایک حصے کے طور پر پاکستان نے مستقل ثالثی عدالت تک رسائی کا سعودی مطالبہ بھی مان لیا ہے تاہم پاکستان نے یہ منوایا ہے کہ اس کیلیے تدریجی رویہ اپنایاجائے گا جس کے تحت ملک کے داخلی فورمز پر کسی تنازع کو حل کرنے کیلیے 8 ماہ تک لازمی کوششیں کی جائیں گی۔ اور منارا منرلز انویسٹمنٹ کمپنی سعودی عرب کی معدنیاتی کمپنی معدن کا ایک نیا منصوبہ ہے اور یہ دنیا بھر میں معدنی اثاثوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
ریکوڈک معدنی کمپنی کو لیویز کو ہائیر کرنے اور بلوچستان کو اس کے حصے کی ادائیگی کے میکنزم بنانے کا کام تفویض کیاگیا ہے۔