ملک بھر میں 533 غیر قانونی پیٹرول اسٹیشنوں کے مالکان ، آپریٹرز کی 100 کالی بھیڑوں اور ایرانی تیل کے 105 اسمگلروں کی مکمل شناخت، پتے اور رابطہ نمبر شامل
مقامی ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے صلاحیت سے کم استعمال اور فروخت میں کمی کی شکایت کے دوران ہر روز تقریباً ایک کروڑ لیٹر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل زمینی اور سمندری راستوں سے پاکستان میں اسمگل کیا جا رہا ہے، جس سے سالانہ 227 ارب روپے سے زائد کی آمدنی کا نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو دی گئی مشترکہ رپورٹ میں کیا گیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں ایک درجن کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں (ایل ای اے)، ملک بھر میں 533 غیر قانونی پیٹرول اسٹیشنوں کے مالکان ، آپریٹرز کی 100 کالی بھیڑوں اور ایرانی تیل کے 105 اسمگلروں کی مکمل شناخت، پتے اور رابطہ نمبر شامل ہیں، رپورٹ میں غیر رسمی سرحدی گزرگاہوں اور پاکستان بھر میں اسمگل شدہ اشیا کے اسمگلنگ کے راستوں کے بارے میں بھی درست معلومات موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی سالانہ مقدار تقریباً 2.8 ارب لیٹر ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسمگل شدہ پیٹرولیم مصنوعات مکران اور رخشان ڈویژن کے غیر متواتر راستوں سے منتقل کی جارہی ہیں اور بنیادی طور پر سڑک کے کنارے غیر مجاز پٹرول آؤٹ لیٹس پر فروخت کی جارہی ہیں۔
ایسے 533 پیٹرول اسٹیشنوں میں سے 348 اسٹیشنز پنجاب میں لاہور، فیصل آباد، جھنگ اور اٹک میں واقع ہیں، کم معیار کی اسمگل شدہ مصنوعات فروخت کرنے والے مزید 116 آؤٹ لیٹس بلوچستان میں، 38 سندھ میں کراچی کی حد تک اور مزید 31 خیبرپختونخوا میں ہیں۔
تقریباً ایک درجن ایجنسیوں کے اہلکاروں کی ان کے ناموں، فون نمبرز، شناختی کارڈز وغیرہ کے ساتھ غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے یا سہولت فراہم کرنے پر شناخت کی گئی ہے۔
تجارت اور کاروبار میں کسٹم انٹیلی جنس، بارڈر مینجمنٹ پولیس، اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر، سول ڈیفنس، پولیس، کسٹم انفورسمنٹ، لیویز، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، سی آئی اے پولیس اور محکمہ پولیس شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی مقدار تقریباً ایک کروڑ لیٹر یومیہ تک پہنچ گئی، جو نگراں حکومت کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں نمایاں طور پر کم ہو کر 50 لاکھ لیٹر یومیہ رہ گئی تھی، تاہم، عام انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی اسمگلنگ ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ لیٹر یومیہ تک پہنچ گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسمگل شدہ ایرانی تیل کے کل 2.8 ارب لیٹر میں سے، 95 فیصد ٹوکن/پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت لایا جاتا ہے جو 2021 میں ایف سی اور مقامی انتظامیہ نے مکران اور رخشان اضلاع میں قائم کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایک ہزار 800 سے 2 ہزار زمباد گاڑیاں، جن میں سے ہر ایک کی گنجائش 3 ہزار 200 سے 3 ہزار 400 لیٹر ہے، روزانہ ڈیزل کی سرحد پار سے نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
اسی طرح ایک ہزار 200 سے ایک ہزار 300 کشتیاں جن میں سے ہر ایک ایک ہزار 600 سے 2 ہزار لیٹر تیل لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے، بنیادی طور پر کنتانی-گوادر کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہی ہیں, سرحد پار کرنے کے بعد، اسمگل شدہ ایرانی تیل گوادر، پنجگور، ماشخیل (واشوک)، چاغی اور کوئٹہ میں واقع زیر زمین ذخیرہ کرنے کی تنصیبات میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے اسے مزید خفیہ طریقے سے گاڑیوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبرپختونخوا دونوں میں منتقل کیا جاتا ہے جبکہ باقی بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے، مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات ایل ای اے کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ایرانی تیل کی اسمگلنگ ممکن نہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے جانے والے سیکڑوں آئل ٹینکرز ان چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد روزانہ اتھل سے سندھ (کراچی) جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی ڈیلرز کو تقریباً 285 ارب روپے سالانہ ادا کیے جاتے ہیں، بلک ڈیلز کے لیے ادائیگیاں عام طور پر کسی تیسرے ملک کے ذریعے یا تو ہوالہ ہنڈی کے ذریعے امریکی ڈالر میں کی جاتی ہیں، اس صورت میں ایرانی تیل کی ترسیل تیسرے ملک میں رقم کی وصولی کی تصدیق کے بعد کی جاتی ہے۔