اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر انکی توجہ حکومتی انتظامی اداروں بالخصوص خفیہ ادارے کی جانب سے ہائی کورٹ ،ضلعی عدلیہ اور خصوصی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کیلئے مرضی کے بنچوں کی تشکیل
مرضی کے مقدمات کو چن کر ان بنچوں میں سماعت کیلئے مقرر کروانے، ججوں کو حراساں کرنے،ڈرانے دھمکانے اوردباؤ ڈالنے کے مبینہ شرمناک اقدامات کی جانب مبذول کرواتے ہوئے اس پریکٹس کے سدباب کیلئے ادارہ جاتی سطح کی پالیسی اور میکنزم کی تشکیل کیلئے ملک بھر کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا کنونشن منعقد کروانے کی استدعا کی ہے۔
خط میں جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے فیض حمید اور دیگر اہلکاروں پر عائد الزامات کی تحقیقات کی درخواست کی گئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار ،جسٹس سردار اعجاز اسحاق ، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سوموار25مارچ کو یہ خط چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ،اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اورپشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے ،
جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ ہم سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ خط لکھ کرایک اہم معاملہ میں رہنمائی چاہتے ہیں کہ اگر ایک جج کے فرائض منصبی کے دوران انتظامی یا خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے مداخلت کی جائے یا انہیں دھمکایا جائے تو اس جج کو کیا کرنا چاہیے؟
خط کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ کی جانب سے 22 مارچ 202 کو جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی بنام وفاق پاکستان کے مقدمہ کا فیصلہ آنے کے بعد اٹھا ہے ،جس میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی ایک غیر قانونی رپورٹ کی روشنی میں 11 اکتوبر 2018 کو ان کے عہدہ سے ہٹایا گیا تھا ،تاہم اس فیصلے کی روشنی میں اب انہیں ایک ریٹائرڈ جج تصور کیا جائیگا ،
خط کے مطابق جسٹس صدیقی پر الزام تھا کہ انہوں نے خفیہ ادارے کے ڈی جی (کاؤنٹر انٹیلی جنس) میجر جنرل فیض حمید کی سربراہی میں،خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنچوں کی تشکیل، مقدمات کو مقرر رکنے اور احتساب عدالت کی کارروائی میں مداخلت کے حوالے سے کھلے عام الزامات عائد کیے تھے، جس پر چیف آف آرمی اسٹاف اور وفاقی حکومت نے انکے خلاف شکایات کی تھیں ۔
فاضل ججوںنے مزید لکھا ہے کہ اگرچہ اس فیصلے سے جسٹس شوکت عزیزصدیقی کو کئی سال بعد غیر قانونی طور پر ہٹائے جانے کے عمل کی حد تک تو دادرسی مل گئی ہے، تاہم ان کی جانب سے خفیہ ادارے کے ڈی جی (کاؤنٹر انٹیلی جنس) فیض حمید کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور احتساب عدالتوں میں وقتا فوقتاً کی جانے والے مداخلت کی تحقیقات کا معاملہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے،
فاضل ججوںنے سوال اٹھایاہے کہ وہ کیس حیثیت میں عدالتی امور میںمداخلت کررہے تھےَ عدالتی معاملات میں مداخلت اور انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑے کرنے والوں اور ان کی اعانت کیلئے کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ آئندہ کے لئے اسکاسد باب ہو سکے۔