
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو آگاہ کیا ہے کہ اسپیس بورڈ نے اسٹار لنک کو عارضی این او سی دے دی، اسٹار لنک کو مکمل این او سی ان کی ریگولیشنز فائنل ہونے کے بعد دی جائے گی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس امین الحق کی زیرِ صدارت ہوا، چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو اسٹار لنک کے لائسنس کے معاملے پر بریفنگ دی۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اسپیس بورڈ نے اسٹار لنک کو عارضی این او سی دے دی، جبکہ مکمل لائسنس ان کی ریگولیشنز فائنل ہونے کے بعد دیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ اسٹار لنک کا لائسنس اس وقت تک اجرا کے مرحلے میں ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ اسٹار لنک کے لائسنس میں کیا مشکلات ہیں؟ وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ اسٹار لنک کے لائسنس کے معاملے میں کوئی مشکلات نہیں ہیں، سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک نئی ٹیکنالوجی ہے اس کے مختلف پہلو دیکھنے والے تھے۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ اسٹار لنک کے لائسنس کے لیے کنسلٹنٹ ہائر کیا گیا ہے جو ریگولیشنز فائنل کرنے کے لیے کام کررہا ہے جبکہ ریگولیشنز فائنل ہونے کے بعد اسٹار لنک کو دوبارہ لائسنس کے لیے اپلائی کرنا پڑے گا۔
وزیر آئی ٹی نے بتایا کہ اسٹار لنک کا انفرااسٹرکچر لگنے کے بعد نومبر، دسمبر میں اس کی خدمات دستیاب ہوں گی، انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس چین کی کمپنی نے بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے درخواست دے رکھی ہے۔
دریں اثنا، اجلاس میں کراچی کے مختلف علاقوں میں موبائل سگنلز اور کنیکٹوٹی مسائل کا معاملہ بھی زیربحث آیا، چیئرمین کمیٹی نے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ کیا کراچی میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے موبائل سگنلز کے مسائل کا سامنا رہتا ہے؟ کیا پی ٹی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو شو کاز جاری کرتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ کراچی کے مختلف علاقوں اور اردگرد میں موبائل سگنلز کا مسئلہ تشویشناک ہے، موبائل سگنل نہ ہونے کی وجہ سے فون کالز مسلسل ڈراپ ہوتی رہتی ہیں۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ رمضان کے آخری ہفتے میں مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو دو شو کاز جاری کیے تھے، میں نے عید اپنے آبائی گھر گزاری ہے، وہاں 12 گھنٹہ لوڈ شیڈنگ تھی، لوڈ شیڈنگ زیادہ ہو تو بیک اپ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
کمیٹی کی رکن شرمیلا فاروقی نے کہا کہ موبائل کنیکٹوٹی مسئلہ ملک بھر کے لیے درد سر بن گیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمن نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا یوفون اور ٹیلی نار ابھی تک آپس میں ضم نہیں ہوئے ہیں، ابھی تک پی ٹی اے کے پاس دونوں کمپنیوں کے انضمام کی کنفرمیشن نہیں آئی، کوالٹی آف سروس بہتر بنانے کے لیے ٹاورز لگانے کی ضرورت ہے، اسپیکٹرم کی نیلامی میں بہت سی چیزیں مد نظر رکھی جاسکتی ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فائیو جی اسپکٹرم کی نیلامی میں صرف ریونیو پر نظر نہیں رکھنی چاہیے، وفاقی وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا چیئرمین پی ٹی اے خود نیلامی کے عمل کی نگرانی کررہے ہیں، ہمیں اسپکٹرم کی نیلامی میں انڈسٹری کی ہیلتھ کو بھی دیکھنا ہے، ہمیں ریونیو بھی کمانا ہے لیکن انفرااسٹرکچر کو بھی بہتر بنانا ہے، ہم نے دونوں کو بیلنس رکھ کر اسپیکٹرم کی نیلامی کرنی ہے، پورا ملک 274 میگا ہرٹس پر چل رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ کچھ اسپکٹرم بینڈز کے کیسز عدالت میں زیر التوا ہیں، 196 میگا ہرٹس میں سے 146 میگا ہرٹس اسپیکٹرم کا کیس زیر التوا ہے، ایک اور کمپنی کے اسپیکٹرم کے کیس زیر التوا ہیں، اگر ان کیسز کا فیصلہ نہ ہوا تو سپیکٹرم نیلامی میں مشکلات ہوں گی۔
وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ فائیو جی آکشنز میں نمو اور ریونیو کو دیکھنا ضروری ہے، انفرااسٹرکچر ٹھیک کیے بغیر فائیو جی کا آکشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ فائیو جی اسپیکٹرم کے لیے ٹیلی کام کمپنیوں کو ریلیف فراہم کرنا ہوگا، یہ نہ ہو کہ جب فائیو جی شروع ہو تو کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہوں، انہوں نے کہا کہ فائیو جی اسپیکٹرم کے لیے کئی لوگوں نے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ شالیمار کمپنی نے 2007 سے حکم امتناع لے رکھا ہے، فائیو جی اسپیکٹرم کے لیے سپریم کورٹ نے بھی حکم امتناع جاری کیا ہوا ہے، شالیمار کمپنی 140 میگا ہرٹز فریکوئنسی استعمال کر رہی ہے، سیکریٹری قانون کو اس معاملے پر رابطے میں لے رکھا ہے۔زونگ ٹیلی کام نے بھی فائیو جی اسپیکٹرم سے متعلق سپریم کورٹ سے اسٹے لے رکھا ہے۔
شزہ فاطمہ نے کہا زونگ کمپنی فری میں وہ اسپیکٹرم استعمال کر رہی ہے، عدالت نے دو سال سے فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا۔
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے اسپیکٹرم کے زیر التوا کیسز پر سب کمیٹی قائم کردی، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں سب کمیٹی قائم کی جائے،بیرسٹر عمیر نیازی، عمار لغاری اور شرمیلا فاروقی کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔
کمیٹی ممبر پولین بلوچ نے کہا میں ایک سال سے چِلا رہا ہوں کہ میرے حلقے میں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں، جب تک میرے مسائل حل نہیں ہوتے کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کرتا ہوں۔
بیرسٹر گوہر نے کہاکہ آپ واک آؤٹ نہ کریں، بلوچستان ہم سب کا ہے، آپ کا مسئلہ حل کراتے ہیں، وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا بلوچستان سے متعلق مسائل پر وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو بھیجا تھا، بلوچستان میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سے مسائل ہیں، بدقسمتی سے دہشت گردی میں انٹرنیٹ کا استعمال ہورہا ہے، بلوچستان میں دہشت گردی اور لااینڈ آرڈر کی صورتحال کی وجہ سے احکامات تسلیم کرتے ہیں۔
سی ای او نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے قائمہ کمیٹی کو بیپ پروجیکٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا بیپ ایپلیکیشن سرکاری افسران کی محفوظ کمنیوکیشن کے لیے بنائی گئی ہے، بیپ ایپلیکیشن کی ٹیسٹنگ مکمل کرلی گئی ہے، یہ اپلیکیشن آڈیو، ویڈیو کال ڈاکومنٹ شیئرنگ کے لیے استعمال ہوگی، اس میں زوم کی طرز کی ویڈیو کانفرنسنگ کی صلاحیت موجود ہے، یہ اپلیکیشن دیکھنے میں واٹس ایپ سے ملتی جلتی ہے تاہم اس کے سیکورٹی فیچرز وٹس ایپ سے مختلف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اپلیکیشن سرکاری ملازمین کے لیے بنائی گئی ہے، حکومت اس اپلیکیشن کا دائرہ عام شہریوں تک بھی پھیلا سکتی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیاکہ اگر یہ ایپ وزارت آئی ٹی میں خوش اسلوبی سے چل رہی ہے تو مسئلہ کہاں آرہا ہے؟ بیپ بہت اہم پروجیکٹ ہے، یہ تاخیر کا شکار کیوں ہورہا ہے۔
سی ای او این آئی ٹی بی نے کہا کہ سیکیورٹی کلیئرنس کی وجہ سے بیپ تاخیر کا شکار ہورہا ہے، شرمیلا فاروقی نے کہا کہ کیا وزارت نے کوئی پروٹوکول استعمال کیے ہیں، کیا اس کو ہیکنگ سے روکنے کے لیے میکنزم بنایا گیا ہے؟ کیا اس ایپلی کیشن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا گیا ہے۔
سی ای او این آئی ٹی بی نے کہا کہ بیپ ایپلی کیشن کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا گیا ہے، اسے این ٹی سی کے سرور پر ہوسٹ کیا گیا ہے، این ٹی آئی ایس بی اپلیکیشن کا سیکورٹی جائزہ لے رہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت بیپ کے معاملے پر این ٹی آئی ایس بی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرے، ایپلی کیشن کو فوری لانچ کیا جائے، یہ اپلیکیشن تمام وفاقی وزارتوں میں شروع کی جائے۔
بعد ازاں چیئرمین پی ٹی اے نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایل ڈی آئی کی 9 کمپنیوں کے بقایا جات ہیں، 5 کمپنیوں نے 64 ارب روپے ادا کردیے تھے، ان کمپنیوں کے ذمے بنیادی رقم 24 ارب روپے ہے، 5 آپریٹرز گزشتہ سال رقم اقساط میں دینے کے لیے تیار تھے،5 آپریٹرز 8.2 ارب روپے رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہیں،جو کمپنیاں رقم ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ان کی رقم 16 ارب کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کو شوکاز جاری کیا ہے،ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس کینسل کرسکتے ہیں،اگر رقم اقساط میں لینی ہے تو بھی ہمیں ہدایت نامہ چاہیے، پی ٹی اے خود سے اقساط میں پیسے لینے کا اختیار نہیں رکھتی، اگر پی ٹی اے ایسا کرے گی تو کل پوچھا جائے گا یہ کیسے ہوگیا۔
وفاقی وزیر شزہ فاطمہ نے کہا کہ اگر اقساط میں بقایا جات کی اجازت دے دیں تو پینڈورا باکس کھل جائے گا، حکومت کو پھر دیگر شعبہ جات میں بھی اقساط میں رقم وصولی کرنا ہوگی، کمپنیاں اقساط میں دینے کے باوجود کیسز واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہیں،اگر یہ رقم اقساط میں آجاتی ہے تو بھی حکومت پیسہ استعمال نہیں کرسکے گی،کورٹ کیسز ختم ہونے تک یہ رقم ایسکرو اکاونٹ میں پڑے ہونگے،پی ٹی اے کوئی بھی فیصلہ یکطرفہ نہیں کرسکتا ہے، پی ٹی اے اگر ایسا کرتا ہے تو کل اس سے سوال ہوگا، یہ کیسز عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، عدالت نے کہا کہ کوئی بھی ایکشن نہ لیا جائے۔
کمیٹی ممبر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ان کمپنیوں نے پاکستانی عوام سے اربوں روپے کمائے، ان کمپنیوں کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے، یہ رقم ان کمینوں کے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ان کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے سے نیٹ ورک متاثر ہوگا،50 فیصد موبائل سروس اور 40 فیصد اے ٹی ایم ڈاون ہوں گے، چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ پی ٹی اے، وزارت آئی ٹی مل بیٹھ کر کسی حل لے کر ساتھ آئے،اس پر وزارت آئی ٹی، پی ٹی اے ایل ڈی آئی کمپنیوں کے ساتھ بیٹھیں۔