
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جعفر ایکسپریس آپریشن کی تفصیلات جاری کردیں،
انہوں نے کہا کہ 26 شہدا میں سے 18 کا تعلق آرمی اور ایف سی تھا۔ 3 کا تعلق ریلوے سے تھا۔ دہشت گردوں نے ٹرین حملے سے پہلے ایف سی پوسٹ پرحملہ کیا جس میں 3 اہلکار چوکی پر شہید ہوئے، 1 ایف سی اہلکار فائرنگ سے شہید ہوا، 1 ٹرین میں شہید ہوا۔
دہشتگرد کسی بھی یرغمالی کو ساتھ لے کرنہیں گئے، دہشت گرد افغانستان میں ہینڈلرز سے رابطے میں تھے، انھیں اسلحہ بھی وہیں سے ملتا ہے۔ علاقے میں سینٹائزیشن جاری ہے، متعدد غاروں کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ سانحہ جعفر ایکسپریس کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ واقعہ دشوار گزار پہاڑی علاقے میں پیش آیا، واقعہ جہاں ہوا وہاں کوئی موبائل سگنل کام نہیں کرتا، جائے وقوعہ کے قریب ایف سی کا پکٹ بھی تھا، واقعے میں ابتدائی طورپر تین ایف سی کے جوان شہید ہوئے۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ دہشت گردوں نے خواتین کو ٹرین میں رکھا باقیوں کو باہر لے آئے، دہشت گردوں نے ٹولیوں کی صورت میں معصوم شہریوں کو باہر رکھا، دہشت گردی کے دوران بھارتی میڈیا بھرپور پروپیگنڈا کررہی تھی، مصنوعی ذہانت کی مدد سے بھارتی میڈیا رپورٹنگ کرتا رہا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ جس علاقے میں واقعے ہوا وہاں پہنچنا مشکل تھا، جائے وقوعہ سے بھارتی میڈیا پر چلنے والی فوٹیجز اے آئی کی تھی، بھارتی میڈیا ایک بیانیے کے تحت پروپیگنڈا کرتا رہا، سوشل میڈیا سے پرانی فوٹیجز اٹھا کر بھارتی میڈیا چلاتا رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 11 تاریخ ایک بجے کے قریب جعفرایکسپریس پر پہلا دھماکا ہوا، ان دہشت گردوں کا نا بلوچ اور نا پاکستان سے تعلق ہے، ان دہشت گردوں کا انسانیت سے بھی تعلق نہیں، واقعے کے دوران دہشت گرد افغانستان میں موجود ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے، 12 مارچ کی صبح قریب موجود سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کی، دہشت گرد کئی گروپوں میں تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے بیشتر دہشت گردوں کو بھاگتے بھی دیکھا گیا، دہشت گردوں نے ٹولیوں میں خودکش حملہ آور بھی بٹھا رکھے تھے، ضرار کمپنی نے ان ٹولیوں سے خودکش حملہ آوروں کو مہارت سے مارا، ضرار کمپنی نے دہشت گردوں کو پناہ گاہوں سے نکلنے پر مجبور کیا، ضرار کے نوجوان سب سے پہلے انجن کا ٹیک اوور سنبھالتے ہیں، انجن کے بعد تمام بوگیوں کو کلیئر کیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ آپریشن کے دوران کسی بھی یرغمالی کو کوئی نقصان نہیں ہوا، دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے کچھ یرغمالیوں کو شہید کیا، آپریشن اتنی مہارت سے کیا کہ کسی ایک بھی یرغمالی کی جان نہیں گئی، آپریشن کے دوران پہاڑوں سے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ بھی کی گئی، دہشت گردوں کے پاس غیرملکی اسلحہ موجود تھا، سیکیورٹی فورسز نے یرغمالیوں کو باحفاظت وہاں سے نکالا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مسافروں کو باقائدہ سیکیورٹی نگرانی میں جائے وقوعہ سے نکالا گیا، سیکیورٹی فورسزنے جدید پلاننگ کے ساتھ جوابی کارروائی کی، اس واقعےکے تانے بانے پڑوسی ملک افغانستان سے ملتے ہیں، انفارمیشن وار کو بھارتی میڈیا لیڈ کر رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ 36 گھنٹے میں یہ کامیاب آپریشن کیا گیا، پاکستان ایئر فورس نے بھی آپریشن کے دوران اہم کردار ادا کیا، تاحال کلیئرینس آپریشن جاری ہے، پاکستان میں خارجیوں سمیت افغانی بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں، افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث رہا۔
ڈجی آئی ایس پی آر اور وزیراعلٰی بلوچستان کی پریس کانفرنس کے دوران کلبھوشن یادو کا اعترافی کلپ بھی چلایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن میں شریک تمام جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، یہ افغان دہشتگرد صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے لیے خطرہ ہے، دہشتگردی کیخلاف پوری قوم نے لڑنا ہے، قومی ایکشن پلان میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ حامی بھری، تمام سیاسی جماعتوں نے 14 نکات پر اتفاق کیا تھا، ان 14 نکات پر اگرعمل ہو تو دہشتگردی کبھی نا بھڑے۔ 2024 اور2025 میں 1250 دہشتگرد ہلاک ہوچکے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ لاپتا افراد کے مسئلے پر ایک کمیشن بنا ہوا ہے، حساس اداروں کو بہت سی معلومات ہوتی ہیں، ایسا نہیں کہ یہ واقعہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، انٹیلی جنس سے اس سے پہلے بھی کہیں کامیاباں ہوئی، تمام ایجنسیاں دن رات پاکستانی شہریوں کی حفاظت پر لگی ہوئی ہیں، سبی بھر میں تھریڈز ہیں، اس واقعے میں بروقت رسپانس بھی انٹیلی جنس کی کامیابی ہے۔ اس گروہ کا نہ بلوچوں اور نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔
بی بی سی کی صحافی نے سوال کیا کہ کیا تعداد بڑھ سکتی ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی نے جواب دیا کہ 365 بازیاب میں سے 37 زخمی ہیں، لہذا تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے۔ شہید ہونے والوں میں سے 26 میں سے 18 کا تعلق آرمی اور ایف سی تھا۔ 3 کا تعلق ریلوے سے تھا۔ 3 اہلکار چوکی پر شہید ہوئے، 1 ایف سی اہلکار فائرنگ سے شہید ہوا، 1 ٹرین میں شہید ہوا۔ دہشت گرد کسی بھی یرغمالی کو نہیں لے کر گئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ شروع ہی سے آبزرویشن ہو رہی تھی۔ یرغمالی تین گروپوں میں رہا ہوئے، ایک ٹولی کو انھوں نے خود چھوڑا، دوسرا ایف سی کی فائرنگ کے دوران بھاگنے میں کامیاب ہوا، تیسرا ضرار کمپنی کے آپریشن میں رہا ہوا۔ علاقے میں سینٹائزیشن جاری ہے، متعدد غاروں کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔
ٹرین ڈرائیور نے بتایا کہ بی ایل اے والوں نے سب سے پہلے انجن کو نشانہ بنایا، میں نے فوری ایمرجنسی لگائی دیکھا تو بی ایل اے آگئی تھی، پاک فوج کا شکر کہ انہوں نے معصوم جانوں کو بچایا۔
متاثرہ ٹرین کے مسافر نے کہا کہ پاک فوج کی بدولت تمام مسافروں کی جان بچ سکی، ایف سی اہلکاروں نے طبی امداد بھی دی، حادثے کے فوری بعد ایف سی والوں نے ہمیں وہاں سے نکالا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ کے دوران دہشتگردوں سے بازیاب ہونے والے مسافروں کی ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس میں مسافروں کو بہ حفاظت سیکیورٹی فورسز نے بازیاب کرایا۔ آپریشن کلیئر ہونے کے بعد حصہ لینے والے جوانوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔
اس موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے کہا کہ سانحہ جعفر ایکسپریس کی تفصیلات شیئر کریں گے، سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن پر سراہتے ہیں، بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کا دہشت گردی واقعہ ہوا۔
سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ بلوچ روایات میں اس طرح کے واقعات کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، دہشت گردوں نے بلوچ روایات کو پامال کیا، ان دہشت گردوں کا بلوچ قوم سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گردی کی جنگ کا بلوچوں اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں، ایسے واقعات پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، عالمی برادری نے سانحہ جعفر ایکسپریس کی مذمت کی جس پر شکر گزار ہیں۔
وزیراعلٰی بلوچستان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دورحکومت میں دہشتگردوں کو لا کر بسایا گیا، تمام دہشتگردوں کی سرپرست بھارتی ایجنسی را ہے، ان سب دہشتگردوں کی نانی ”را“ ہے، ہم نے ایک ریاست کی طرح اس دہشتگردی کیخلاف ردعمل دینا ہے، کیا صرف پاکستان میں مسنگ پرسنز ہیں؟ ہماری فورسز کے پاس دہشتگردوں کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتا افراد کو تلاش کرے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ یہ ناراض بلوچ نہیں دہشتگرد ہیں، بلوچستان میں جیلوں سے ایسےعناصر کو پچھلی حکومت میں چھوڑا گیا، ان عناصر کو جیلوں سے چھوڑا گیا تو انہوں نے دوبارہ کیمپس قائم کر دیے۔ ہمیں بلوچستان کی زمینی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ دہشتگرد ہمارے ملک کو تقسیم کرناچاہتے ہیں۔ میں نے کب کہا بلوچستان میں دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، لیکن اسکا مطلب خون خرابہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز (11 مارچ) دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا، اور جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا۔
اگرچہ دور دراز علاقے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا، سیکیورٹی فورسز نے بتایا تھا کہ انہوں نے ڈھاڈر کے علاقے میں بولان پاس میں یرغمالیوں کو بچانے کے لیے ایک بڑے آپریشن کا کیا تھا، جس میں گزشتہ رات تک کم از کم 16 حملہ آور ہلاک کیے جاچکے تھے۔
جس کے بعد 12 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے یرغمالی مسافر بازیاب ہوگئے اور تمام 33 دہشت گرد ہلاک کردیے گیا تاہم آپریشن شروع ہونے سے پہلے دہشت گردوں نے 21 شہریوں کو شہید کیا۔