جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے دینی مدارس سے متعلق نئے بل کا مسودہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد ریاست سے تصادم نہیں بلکہ مدارس کی رجسٹریشن ہے، اس معاملے پر علما کو علما کے مقابلے میں لایا جارہا ہے۔
مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں پاکستان بھر سے ہر مکتبہ فکر کے جید علماء نے شرکت کی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانونی پچیدگیوں کے باعث ایکٹ نہیں بن سکا ہے، 2018 میں بھی تمام مدارس کو علما کی مشاورت سے مدارس کو قومی دھارے میں لایا گیا تھا۔
اس معاملے پر چارسدہ میں نیوز کانفرنس کے دوران جےیو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا آج اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، ہم ان علما کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں، دینی مدارس کے حقوق کی جنگ تمام مدارس اور علما کے لیے لڑ رہے ہیں۔
فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ان کی جماعت مدارس کو محفوظ بنانے اور ان کے حقوق کی حمایت کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ جوعلما آج اسلام آبادمیں جمع ہوئے ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ قانون کی بات کر رہے ہیں اور حکومت کو اسے سیاسی اکھاڑہ نہیں بنانا چاہیے, وہ گزشتہ روز مدارس بل کے حوالے سے حتمی اعلان کرنے والے تھے، لیکن ایسا نہیں کیا جا سکا۔
فضل الرحمان نے سوال اٹھایا کہ اگر صدر دوسرے ایکٹ پر دستخط کر سکتے ہیں تو مدارس بل پر کیوں نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں کی ہے، اور گورنر راج سے کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھتا۔
مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ نئے شوشے نہیں چھوڑے جانے چاہئیں، اور ان کا مقصد ملک کو بچانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مدارس بل پر تمام متعلقہ افراد کو اعتماد میں لے چکے ہیں