وفاقی حکومت سیاسی محاذ آرائی کے دوران انٹرنیٹ پر ’ڈریکولا طرز‘ کی پابندیاں نافذ کر رہی ہے، ماہرین اور شہریوں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان متوقع ’تابناک مستقبل‘ سے پیچھے رہ جائے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹڑ (ایکس) پر فروری سے پابندی ہے، انٹرنیٹ کی بندش معمول بنتی جارہی ہے، حکومت کی پابندیوں سے بچنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ویب ٹولز بھی جلد ہی انفرادی سطح پر استعمال کے لیے ممنوع ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ چند سالوں کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں کے لانگ مارچ یا بڑے سیاسی اجتماعات کے دوران انٹرنیٹ کی بندش میں اضافہ دیکھا گیا ہے، موبائل ڈیٹا کے ساتھ ساتھ اب گھریلو انٹرنیٹ کنکشن بھی بند کیے جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں عمران خان کے ٹیکنالوجی سے واقف نوجوان حامیوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو اسلام آباد کے مارچ میں ’چیلنج‘ کرنے کے بعد ان اقدامات میں اضافہ ہوا،
وفاقی دارالحکومت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد ’موبائل ڈیٹا‘ بلاک کیا گیا، سکیورٹی خدشات کی وجہ سے گھریلو انٹرنیٹ کنکشنز بھی متاثر ہوئے۔
ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے سرگرم سماجی رہنما اسامہ خلجی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ پر جس سطح کی سینسرشپ اور نگرانی دیکھی جارہی ہے، اس کے نتیجے میں معاشرے میں ’بے چینی‘ پھیل رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو 2022 میں حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاج اور مظاہروں کے دوران انٹرنیٹ کی بندش ہوتی رہی ہے تاہم گھریلو انٹرنیٹ کو بند کرنا غیر معمولی ہے، تاہم وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اسلام آباد کے مخصوص علاقوں میں انٹرنیٹ بند کیا گیا تھا۔
وائرلیس انٹرنیٹ سروس پرو وائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ شہزاد ارشد نے کہا کہ ’ماضی کے احتجاج کے دوران اسلام آباد کے رہائشیوں نے اپنے وائی فائی ’اوپن‘ کر دیے تھے، اس لیے اس بار گھریلو انٹرنیٹ بھی پابندی کی زد میں آگیا۔
اسسٹنٹ پروفیسر، محمد فہیم خان نے کہا کہ انٹرنیٹ کنکشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمیں ’دہرے‘ لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا، میں یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے نہیں جا سکا اور انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز بھی نہیں دے سکا، انٹر نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے جاری منصوبے رک گئے، کوئی کام نہیں ہوسکا اور زندگی ’پھیکی‘ پڑ گئی۔
سال 2023 میں پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا، جس سے بچنے کی واحد صورت غیر ملکی ’بیل آئوٹ پیکیج‘ رہ گیا تھا، اس کے بعد موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ٹیکنالوجی کو ’لائف لائن‘ قرار دیا تھا۔
طالبہ اور بلاگر خدیجہ رضوی کہتی ہیں کہ اس بار انٹرنیٹ کی ’بد ترین‘ بندش کی گئی، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، اس تمام صورت حال نے انہیں بے حد مایوس کیا ہے، اگر انٹرنیٹ کی بندش کا یہی معمول جاری رہا تو ’با مقصد ترقی‘ ممکن نہیں ہوسکے گی، حالیہ انٹرنیٹ کی بندش کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ تمام صلاحیتیں اور قیمتی وقت برباد ہوگیا۔
اس تمام صورت حال میں آن لائن ایپس استعمال کرکے فوڈ ڈیلیوری کرنے والے ہزاروں رائیڈرز اور ڈرائیورز کا روزگار بھی متاثر ہوا۔
اسلام آباد کی آبادی محض 10 لاکھ افراد پر مشتمل ہے تاہم دوسرے شہروں میں بسنے والے 24 کروڑ پاکستانی بھی اگست سے جاری انٹرنیٹ کی بندش سے متاثر ہوتے ہیں، ڈیجیٹل تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت فائر وال کا تجربہ کرتی رہے ، جس کی بدولت اسے یہ طاقت ملتی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ریلیوں یا مظاہروں کی شیئر کی جانے والی وڈیوز اور تصاویر کو روکا جا سکے۔
کئی صارفین اور فری لانسرز حکومت کی انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے وی پی این استعمال کرتے رہے ہیں تاکہ وہ بیرون ملک موجود اپنے گاہکوں کو خدمات فراہم کرکے روزگار کماتے رہیں، پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن کے مطابق 24 لاکھ پاکستانی آن لائن خدمات فراہم کرکے روزگار کما رہے ہیں تاہم رواں ماہ اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر قانونی مواد تک رسائی کے لیے وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار دیا تھا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا ہے کہ یکم دسمبر سے صرف رجسٹرڈ وی پی اینز ہی استعمال کیے جاسکیں گے، ان کا صرف کمرشل استعمال ہی کیا جاسکے گا، غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو بلاک کر دیا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فری لانسرز کو بھی وی پی اینز کی سہولت مل سکے گی تاہم ان کا کسی آجر سے منسلک ہونا ضروری ہے، ایسے فری لانسرز کو اپنی ذاتی معلومات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ ان کی نگرانی کی جاسکے۔
ڈائریکٹر ولسن سینٹر، سائوتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’پاکستان اپنی ڈیجیٹل اکانومی کو مضبوط تر بنانے کی خواہش رکھتا ہے تاہم آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے ’ڈریکولا طرز‘ کے اقدامات بھی کر رہا ہے۔