فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی نئی رپورٹ کے مطابق 24-2023 کے دوران ٹیکس چھوٹ کی مجموعی لاگت 3.8 ٹریلین روپے رہی۔
مالی سال 24-2023 کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹیکس اخراجات میں ٹیکس کوڈ کے اندر خصوصی دفعات شامل ہیں ، جیسے اخراج ، کٹوتی ، موخر ، کریڈٹ ، اور ٹیکس کی کم شرحیں ، جو کچھ سرگرمیوں یا ٹیکس دہندگان کے گروپوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔
ٹیکس اخراجات کی رپورٹ ان دفعات کے نتیجے میں حکومت کو ہونے والے ریونیو کی مقدار کا تعین کرتی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے تیار کی گئی اس رپورٹ میں ٹیکس سال 2024 کے دوران دی جانے والی مختلف ٹیکس رعایتوں کی جامع سمری پیش کی گئی ہے، جس میں ان ٹیکس فوائد پر مختلف شعبوں کے معاشی ردعمل کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہے۔
عالمی سطح پر یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کم ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس اخراجات ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023 کے دوران وفاقی ٹیکس اخراجات کا تخمینہ 3879.20 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
مختلف ٹیکس نظاموں کے اعداد و شمار کے مطابق انکم ٹیکس اخراجات 476.96 ارب روپے (ایف بی آر کی وصولی کا 6.66 فیصد، مجموعی اخراجات کا 12.30 فیصد اور جی ڈی پی کا 0.57 فیصد) تھے۔
سیلز ٹیکس اخراجات 2,858.72 ارب روپے (ایف بی آر کی وصولی کا 39.91 فیصد، مجموعی اخراجات کا 73.69 فیصد اور جی ڈی پی کا 3.40 فیصد) رہے۔ کسٹم ڈیوٹی اخراجات 543.52 ارب روپے (ایف بی آر کی وصولی کا 7.59 فیصد، کل اخراجات کا 14.01 فیصد اور جی ڈی پی کا 0.65 فیصد) تھے۔
مجموعی اخراجات مالی سال (23-2022) کے لئے ایف بی آر کی کل ٹیکس وصولیوں کا 54.15 فیصد ہیں اور گزشتہ مالی سال کے 36.43 فیصد سے بڑھ گئے ہیں۔
اس عرصے کے دوران مجموعی اخراجات جی ڈی پی کا تقریبا 4.61 فیصد رہے جبکہ گزشتہ سال یہ 3.36 فیصد تھے۔
مالی سال 23-2022 میں وفاقی ٹیکس اخراجات میں مطلق قدر کے لحاظ سے ایف بی آر کی کل ٹیکس وصولی کے فیصد اور جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر اضافہ ہوا۔
یہ اضافہ بنیادی طور پر پی او ایل کی کچھ مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی صفر درجہ بندی، برآمدی ریلیف اقدامات اور دیگر معاشی استحکام کی کوششوں کی وجہ سے ہوا۔
مالی سال 23-2022 میں جی ڈی پی میں 27.1 فیصد اضافہ دیکھا گیا اور یہ 84,068 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اسی طرح لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کا شعبہ 7,041 ارب روپے سے بڑھ کر 8,534 ارب روپے تک پہنچ گیا جو 21.2 فیصد اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
برآمدات کی مالیت بھی 5 ہزار 661 ارب روپے سے بڑھ کر 6 ہزار 859 ارب روپے ہوگئی جو 21.2 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ افراط زر کی شرح 21.35 فیصد سے بڑھ کر 29.4 فیصد ہوگئی۔