شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس میں شرکت کے بعد بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر واپس روانہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران بہترین مہمان نوازی پر حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 9 سال کے وقفے کے بعد کسی بھی بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا، اس سے قبل دسمبر 2015 میں اُس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ اس کانفرنس میں بطور خارجہ سیکریٹری ایس جے شنکر نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
وطن واپسی پر بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے ایس سی او اجلاس میں بہترین مہمان نوازی پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار کا شکریہ ادا کیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے ایک پیغام میں بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے بتایا کہ وہ اسلام آباد سے روانہ ہو رہے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ کا شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس سے خطاب
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان کی کونسل کی صدارت پر کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کامیاب صدارت کے لیے بھارت اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم اس اجلاس میں ایک ایسے موقع پر مل رہے ہیں جب دنیا میں دو بڑے تنازعات جاری ہیں جن کے عالمی سطح پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، کووڈ19 کے وبائی مرض نے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر سپلائی چین کی غیر یقینی صورتحال اور مالیاتی اتار چڑھاؤ جیسی مختلف قسم کی رکاوٹیں ترقی کو متاثر کر رہی ہیں۔
انہوں نے قرض کو سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے دنیا اپنی پائیدار ترقی کے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکی، ٹیکنالوجی بہت سے فوائد کی حامل ہے لیکن ساتھ ساتھ اس سے متعدد خدشات بھی وابستہ ہیں لہٰذا شنگھائی تعاون تنظیم ان چیلنجوں سے کس طرح سے نمٹیں گے؟۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سوالات کے جواب تنظیم کے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں اس تنظیم کے قیام کا مقصد باہمی اعتماد، دوستی اور پڑوسیوں سے مضبوط روابط بہتر بناتے ہوئے علاقائی سطح پر کثیر الجہتی تعاون کو فروغ دینا ہے، یہ متوازن ترقی، انضمام اور تنازعات کی روک تھام کے لحاظ سے ایک مثبت قوت بننا ہے جبکہ چارٹر نے ہمیں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسے تین چیلنجز درپیش ہیں جن کے حل کے لیے ایس سی او پرعزم ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ دور میں ایس سی او چارٹر کے یہ اہداف مزید اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایماندارانہ گفتگو کریں کہ کیا آیا اعتماد کی کمی ہے یا تعاون ناکافی ہے، آیا دوستی میں کمی ہے اور کہیں اچھی ہمسائیگی ناپید تو نہیں، تو یقیناً ہمیں ان وجوہات پر غور اور ان کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم چارٹر سے انتہائی پرخلوص وابستگی کا اعادہ کریں تو ہم اس سے بھرپور استفادہ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو احساس ہے کہ دنیا بڑی تقسیم کی جانب بڑھ رہی ہے، گلوبلائزیشن اور ری بیلنسنگ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور دونوں نے مجموعی طور پر تجارت، سرمایہ کاری، رابطے، توانائی کے بہاؤ اور تعاون کی دیگر اقسام کے لحاظ سے بہت سے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم ان شعبوں میں آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے خطے کو بہت فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یہ تعاون باہمی احترام اور خود مختار مساوات پر مبنی ہونا چاہیے، اس میں علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو تسلیم کرنا چاہیے، اسے یکطرفہ ایجنڈوں کے بجائے حقیقی شراکت داری پر مبنی بنایا جانا چاہیے، اگر ہم اس سلسلے میں عالمی طرز عمل بالخصوص تجارت اور ٹرانزٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو اس سے ترقی ممکن نہیں۔
سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ ہماری کوششیں اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب چارٹر سے ہماری وابستگی مضبوط رہے گی،
یہ واضح ہے کہ ترقی اور نمو کے لیے امن اور استحکام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر سرحد پار دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی جیسی سرگرمیاں ہوں گی تو اس سے تجارت، توانائی کے بہاؤ، رابطوں اور عوام کے درمیان رابطے کی حوصلہ افزائی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم شہبازشریف اور ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار کاشکریہ ادا کرتےہیں، بہترین مہمان نوازی پر حکومت پاکستان کے بھی شکرگزار ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے ایس سی او اجلاس کے پہلے دن سربراہان مملکت کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سمیت غیر ملکی شخصیات کا خیرمقدم کیا تھا، اس موقع پر وزیر اعظم نے بھارتی وزیر خارجہ سے مصافحہ بھی کیا تھا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے 23واں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گزشتہ روز بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر بھی پاکستان پہنچے تھے۔