سینیئر اداکار ایوب کھوسو نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرکے سول سرونٹ بنیں یا پولیس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں لیکن وہ اداکار بنے۔
ایوب کھوسو نے حال ہی میں مزاحیہ پروگرام ’مذاق رات‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے کیریئر سمیت شوبز انڈسٹری کی حالیہ صورت حال پر بھی کھل کر بات کی۔
اداکار نے بتایا کہ ماضی میں اداکار اچھا کام کرنے کے لیے دو دو ماہ تک پریکٹس کرتے تھے، آج کل کام کے بجائے مناظر شوٹ کرنے کی تعداد کو مکمل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔
انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ وہ ایک بار کسی پروڈیوسر کے ساتھ کمرے میں بیٹھے کہ ان کے پاس شوٹنگ اسسٹنٹ آئے، جنہوں نے پروڈیوسر کو بتایا کہ 18 سینز شوٹ کرنے کا ٹارگٹ تھا لیکن 15 مناظر شوٹ ہوپائے، جس پر پروڈیوسر نے برہمی کا اظہار کیا۔
ایوب کھوسو کا کہنا تھا کہ پروڈیوسر نے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ مناظر کیسے شوٹ ہوئے، اچھے تھے یا برے؟ اس حوالے سے انہوں نے کوئی استفسار نہ کیا، انہیں صرف ٹارگٹ پورا نہ ہونے کی فکر تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جب پروڈیوسر ہی یہی چاہیں گے تو اداکار بھی ایسے ہی کام کریں گے اور پھر ٹیم کے دوسرے ارکان بھی ایسا ہی کام کریں گے اور اب ڈراما انڈسٹری میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے اور انڈسٹری مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا کیریئر ’چھائوں‘ نامی پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ڈرامے کے بعد بدلا اور بہتر ہوا، جس میں انہوں نے ایک پنجابی شخص کا کردار ادا کیا تھا۔
ایوب کھوسو کے مطابق انہوں نے زمانہ طالب علمی سے پی ٹی وی سینٹر کوئٹہ سے اداکاری کا آغاز کیا اور ابتدائی طور پر انہوں نے بلوچی، پشتو اور براہوی زبانوں کے ڈرامے کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسکول کے زمانے سے ہی اداکاری کا شوق تھا لیکن انہوں نے کچھ انتظار کرکے کالج کے زمانے سے اداکاری شروع کی۔
ایوب کھوسو نے بتایا کہ ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر سول سرونٹ بنیں یا پھر پولیس کے اعلیٰ افسر بنیں لیکن انہیں بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا۔
ان کے مطابق انہوں نے اہل خانہ سے چوری اداکاری شروع کی اور کچھ ہی عرصے بعد ایک میگزین میں ان سے متعلق ایک انٹرویو شائع ہوا، جس میں انہیں اچھا شخص قرار دیا گیا تھا، جس پر ان کے تایا نے انہیں اداکاری جاری رکھنے کی ہدایت کی لیکن ساتھ شرط رکھی کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کریں گے۔