محمد بلال غوری
ماضی میں آئی ایس آئی کے کئی سربراہان تنازعات کی زد میں رہے، کئی ایک پر تو بہت سنجیدہ الزامات عائد ہوئے مگر کسی کو قانون کے کٹہرے میں نہ لایا جاسکا۔مثال کے طور پر جنرل (ر) حمید گل نے اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے آئی جے آئی بنائی تاکہ بینظیر بھٹو کا راستہ روک سکیں ۔انہوں نے بعد از ریٹائرمنٹ کئی انٹرویوز میں ببانگ دہل یہ اعتراف کیا کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی غرض سے انہوں نے قومی فریضہ سمجھ کر یہ کام کیا۔اسی طرح جنرل (ر)اسد درانی مہران بینک اسکینڈل کی زد میں آئے، اصغر خان کیس میں انہیں عدالتوں میںپیش ہونا پڑا۔ نوے کی دہائی میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے الزامات ثابت ہو جانے اورعدالتی احکامات کے باوجود انکے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ ہوسکی کیونکہ انکا موقف ہے کہ اپنی مرضی سے انہوں نےکچھ نہیں کیا بلکہ صدر مملکت اور آرمی چیف کے احکامات کی تعمیل کی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کارِخاص لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کے ہنگامہ خیز دور میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے مثلاً ممبئی بم دھماکے ،ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ،ایبٹ آباد آپریشن اور پھر میموگیٹ اسکینڈل ۔تاہم ان کا قابل ذکر کارنامہ ’’پروجیکٹ عمران ‘‘کاآغاز تھا۔ جنرل پاشا کو روایتی سیاستدانوں سے سخت نفرت تھی اور وہ اس کا برملا اظہار کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔امریکی صحافی اسٹیو کول اپنی کتاب ’’ڈائریکٹوریٹ ایس‘‘کے صفحہ نمبر 331پر لکھتے ہیںکہ جنرل پاشا کا سیاست سے متعلق فلسفہ پڑھے لکھے شہری پاکستانیوں کی سوچ سے بالکل ہم آہنگ تھا اور جنرل پاشا سادہ الفاظ میں اسے بیان کرتے ہوئے کہا کرتے تھے’’میں ایک ایسے ملک میں رہنا چاہتا ہوں ،جہاں میرے بچوں کو بھٹو اور شریف خاندان میں سے کسی ایک کا انتخاب نہ کرنا پڑے۔‘‘جنرل پاشا نے اپنے اس سیاسی فلسفے اور پسند ناپسند کو محض سوچ تک ہی محدود نہ رکھا بلکہ عملاً ان دونوں سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو سیاست سے آئوٹ کرکے ایک تیسری سیاسی قوت کو متعارف کروانے کی کوشش کی۔جب وہ رُخصت ہوئے تو سیاسی بندوبست کے اس منصوبے کی باگ ڈور اپنے جانشین لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے ہاتھوں میں تھما گئے۔
جنرل ظہیر الاسلام کو مسلم لیگ(ن)کی حکومت گوارہ نہیں تھی۔دیگر وجوہات کے علاوہ نوازشریف کی حکومت سے انہیں ایک گلہ یہ بھی تھا کہ 19اپریل 2014ء کو حامد میر پر حملہ ہوا تو حکومت نے اس کا دفاع نہیں کیا۔وفاقی وزیر پرویز رشید عیادت کرنے پہنچےاور یہ کہہ کر واضح پیغام دیا کہ ہم ’’غلیل‘‘والوں کے ساتھ نہیں بلکہ’’دلیل ‘‘والوں کے ساتھ ہیں۔ ناراضگیوں کا سلسلہ بہت دراز ہوچکا تھا۔29نومبر 2013ء کو جنرل کیانی نے سبکدوش ہونا تھا، اگرچہ جنرل ظہیر الاسلام سنیارٹی لسٹ میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر تھے مگر وہ بھی سپہ سالار بننے کی امید لگانے والوں میںشامل تھے۔بالخصوص جب قرعہ فال جنرل راحیل شریف کے نام نکلا تو انہیں مایوسی ہوئی کیونکہ یکم اکتوبر 2010ء کو جو 8میجر جنرل پروموٹ کرکے لیفٹیننٹ جنرل بنائے گئے ان میں جنرل راحیل شریف اور جنرل طارق خان کے ساتھ جنرل ظہیر الاسلام بھی شامل تھے۔اب یکم نومبر 2014 ء کو لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے ریٹائر ہونا تھا اور ناہنجار وزیراعظم سے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ پالیسیوں کے تسلسل اور قومی مفاد میں ایکسٹینشن ہی دے دیتے،چنانچہ ’’لندن پلان‘‘کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔
ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی رپورٹس کے مطابق لندن میں ایجوئر روڈپر جہاں جنرل پرویز مشرف اور رحمان ملک کا اپارٹمنٹ ہے وہاں The Quadrangle Flatsہیں۔یہاںجولائی 2014ء میں لندن پلان تیار ہوا۔ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی اس عمارت کے گیارہویں فلور پر قیام پذیر تھے۔لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے باوردی افسروں نے یہاں بیٹھک کا اہتمام کیا، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پہنچ گئے تو جنرل ظہیر الاسلام تشریف لائے۔طے ہوا کہ اسلام آباد کی طرف یلغار کی جائے۔یہ خفیہ ملاقات ختم ہونے پر سب شرکاء باہر نکلے تو سینئر صحافی مرتضیٰ علی شاہ سے لفٹ میں آمنا سامنا ہوگیا۔جنرل ظہیر الاسلام کے پسینے چھوٹ گئے ،جیو نیوز کے بیوروچیف مرتضیٰ علی شاہ کو کہا گیا ،آپ ایسے سمجھیں جیسے کچھ نہیں دیکھا،اس ملاقات کو رپورٹ نہیں کرنا۔اس کے بعد ایسٹ لندن اور پھر ایجوئر روڈ کے قریب ہی ایک دفتر میں سعودی حکام سے لندن پلان کے حوالے سے خفیہ ملاقات ہوئی۔عمران خان نے پاکستان واپس آتے ہی15جولائی 2014ء کو بنی گالہ میں پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بلایا اور 14اگست کو اسلام آباد کی طرف ’’آزادی مارچ‘‘کا اعلان کردیا۔شجاع نواز نے اپنی کتاب ’’The Battle For Pakistan‘‘ کے صفحہ 262 پرامریکی سفیر رچرڈ اولسن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ امریکی سفیر کے مطابق ستمبر 2014 میں انہیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔پھر یہ ذمہ داری جنرل فیض حمید کے کندھوں پر آن پڑی۔انہوں نے یہ مشن پورا کیا ۔اب ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی ہورہی ہے ۔اگر دوران سروس ان کے کارناموں پر بات ہوگی تو وہ اپنے دفاع میں یہی کہیں گے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے نہیں کررہے تھے مگر بعد ازریٹائرمنٹ سرگرمیوں پر وہ یہ موقف اختیار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا وہی پھندہ تیار کیا گیا ہے جو باآسانی ان کے گلے میں فٹ آجائے۔