تمام صوبائی حکومتیں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری میں ملوث پائی گئی ہیں اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران صوبوں نے وفاقی ٹیکسوں میں سے 33؍ ارب روپے منہا کرکے وفاقی سرکاری خزانے میں نہیں بھیجے۔
پنجاب کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے معاملے میں دیکھا جائے تو ملازمین کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کی مد میں 16؍ کروڑ 60؍ لاکھ روپے کاٹے گئے لیکن انتظامیہ نے یہ رقم یونیورسٹی کے امور چلانے میں خرچ کی۔
دستیاب دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین سطح پر صوبائی حکومتوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے لیکن وفاقی ٹیکس کی نہ جمع کرائی جانے والی رقم واپس نہیں کی جا رہی۔
تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو لکھے گئے خط کے مطابق پنجاب حکومت نے 16.3؍ ارب روپے کا ٹیکس ایف بی آر یا پھر وفاق کے خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ سندھ نے مجموعی طور پر 8.60؍ ارب روپے کا ٹیکس نہیں دیا۔
خیبرپختونخوا نے 5.07؍ ارب روپے ٹیکس جمع نہیں کرایا جبکہ بلوچستان نے 2.34؍ ارب روپے کی ٹیکس کٹوتی نہیں کی۔ آڈیٹر جنرل آفس کی جانب سے یہ معاملہ صوبوں کے ساتھ اٹھایا گیا اور کئی مرتبہ یاد دہانی پر مشتمل خطوط بھی بھیجے گئے لیکن تاحال ٹیکس چوری کی رقم ایف بی آر یا وفاقی خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی۔
اے جی پی اور صوبوں کے درمیان سرکاری خط و کتابت سے پتہ چلتا ہے کہ زیر بحث ٹیکس چوری کا معاملہ2017-18سے 2021- 22تک کے پانچ مالی سال سے جڑا ہے۔ چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو یاد دہانی کرائی گئی کہ متعلقہ آئینی دفعات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے موجودہ قواعد کے مطابق وفاقی ٹیکسز منہا کرکے ایف بی آر یا پھر وفاقی خزانے میں بھیجے جائیں، یہ صوبائی حکومتوں سمیت تمام ود ہولڈنگ ایجنٹس کی اولین ذمہ داری ہے۔
تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ ان ٹیکسوں کی کٹوتی بروقت نہیں کی جاتی اور نہ ہی وفاقی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ہدایت پر چاروں صوبائی اور ضلعی آڈٹ رپورٹس میں 2017-18سے 2021-22تک کے پانچ برسوں کے وفاقی ٹیکس سے متعلق آڈٹ پیراز کی تفصیلات کو یکجا کیا گیا ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ2017-18ء سے 2021-22ء تک کے پانچ برسوں کیلئے چاروں صوبوں کی آڈٹ رپورٹس کو یکجا کر دیا گیا ہے۔
16.3 ارب پنجاب کے متعلقہ محکمے / ودہولڈنگ ایجنٹ کی طرف سے کوئی کٹوتی نہیں کی گئی۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے معاملے میں یہ رقم بالترتیب 8.60؍ ارب روپے، 5.07؍ ارب روپے اور 2.34 ارب روپے ہے۔ تمام صوبائی چیف سیکرٹریز کو یہ ضروری کام پورا کرنے کیلئے یاد دہانیاں کرائی گئیں لیکن کسی سے مثبت رپورٹ نہیں ملی۔
ایک اور دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبوں کی جانب سے چوری شدہ ٹیکس میں انکم ٹیکس بھی شامل ہے جو مختلف کیٹیگریز کے اہلکاروں کی تنخواہوں سے منہا نہیں کیا جاتا۔
لاہور میں ایک سرکاری یونیورسٹی کے معاملے میں، ایک آڈٹ دستاویز کو دیکھ کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی نے مستقل بنیادوں پر ملازمین کی تنخواہوں سے انکم ٹیکس کی کٹوتی روک رکھی ہے۔
23-2019کی مدت کے دوران166؍ ملین روپے کا انکم ٹیکس سرکاری خزانے / ایف بی آر میں جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے بجائے انتظامیہ نے یہ رقم یونیورسٹی کے امور چلانے پر خرچ کر دی۔