بی بی سی نیوز
میں نے گذشتہ چند دنوں میں مصنوعی ذہانت کا جدید ترین آلا ’ریبٹ آر ون‘ استعمال کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اب وہ سمارٹ فون کی جگہ لے لے گا۔
میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آیا مصنوعی ذہانت کا یہ ڈیجیٹل معاون ایک دن میرے لیے ایسے ہی ہو گا جیسے میرا فون ہے یعنی ایک ایسی چیز کہ جس کے بغیر گزارہ مشکل ہو جائے۔
آپ اس ایجاد کے پیچھے کی سوچ کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لاکھوں لوگ چیٹ جی پی ٹی اور کلاؤڈ جیسے مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس استعمال کر رہے ہیں۔
سافٹ ویئر کی کامیابی کے بعد اب یہ لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے کاروباری افراد شاید اب ایسی ہی کامیابی ہارڈ ویئر سے بھی حاصل کرنا چاہیں گے۔ وہ اب اس حوالے سے مصنوعی ذہانت کے ’ٹولز‘ کو مختلف ڈیوائسز کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں۔
مائیکرو سافٹ ایسا ہی کچھ لیپ ٹاپ کے ساتھ کر رہا ہے اور جبکہ سننے میں آیا ہے کہ ایپل کمپنی آنے والے آئی فون میں ایسی ہی کچھ جدت لا رہی ہے۔
وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک بالکل نئی کیٹگری کے آلات متعارف کروانا چاہ رہے ہیں جس کی ایک مثال آر ون ہے۔
ریبٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کا قابل اعتماد معاون روزمرہ کے ڈیجیٹل ٹاسک باآسانی سر انجام دے سکتا ہے۔
آر ون کو آپ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کاحامل یہ معاون آلہ آپ کی روزمرہ کے معمولات میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے آپ اپنا فون بند کرکے حقیقی دنیا میں لوٹ سکتے ہیں۔۔۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ کیسے آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ پہلے بھی اس طرح کے دو آلات متعارف کروائے جا چکے ہیں لیکن وہ لوگوں کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
مثال کے طور ہیومین کے اے آئی پن کو ہی لے لی جیے۔
مارکیز براؤنلی امریکی یوٹیوبر ہیں جو نئے آنے والے آلات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب پر 1 کروڑ 80 لاکھ فالوورز ہیں۔ وہ ہیومین کے اے آئی پن کو ان کی جانب سے آج تک جائزہ لیے جانے والی پروڈکٹ میں بدترین پروڈکٹ کہتے ہیں۔
آر ون اب برطانیہ اور یورپ کی مارکیٹ میں دستیاب ہے لیکن کیا یہ اے آئی پن سے بہتر ہے؟
اس سے پہلے کہ میں آپ کو اس بارے میں اپنا فیصلہ سناؤں آئیے اس آلے پر ایک نظر ڈالیں۔
آپ اس سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں
پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں اچھا کیا ہے؟
ریبٹ آر ون شوخ نارنجی رنگ کا بڑی سی سکرین والی ایک مربع آلہ (ڈیوائس) ہے جو آپ کے ہاتھ میں دور سے ہی دکھ جاتا ہے۔
اس میں ایک بٹن، ایک سکرول وہیل، اور ایک کیمرہ ہے جسے آپ آگے سے پیچھے کی جانب گھما سکتے ہیں اور ایسا کرتے وقت یہ ایک اطمینان بخش آواز پیدا کرتا ہے۔
اس کی قیمت 159 پاؤنڈ ہے جو کہ کافی مناسب ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ کیا کیا کر سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر ابھی آپ اس سے چیزوں کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ فی الوقت اس کی صلاحیتیں کافی حد تک محدود ہیں۔
آپ اس پر سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکتے نہ ہی اس کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ذریعے خریداری اور آن لائن بینکنگ نہیں کی جاسکتی نہ ہی اس پر صحت کے ایپس استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
البتہ آپ اس پر سپوٹیفائی اور ایپل میوزک استعمال کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے بھی آپ کو بڑے سپیکر کی ضرورت ہوگی کیونکہ اس میں لگے سپیکر کی آواز اتنی اونچی نہیں۔
اس کے علاوہ آپ اس پر کبھی کبھار مصنوعی ذہانت کے ذریعے تصاویر تخلیق کرنے کے لیے ’مڈ جرنی‘ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ بس آپ اتنا ہی کر سکتے ہیں۔
ریبٹ آر ون نے وقت اور موسم کی پیش گوئی مجھے صحیح صحیح بتائی۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے میرے بیٹے کے سکول تک پہنچنے کا رستہ بھی صحیح بتایا تاہم مجھے اس کو بتانا پڑا کہ میں اس وقت کہاں موجود ہوں۔ آر ون کو کچھ گفتگو کا انگریزی سے جرمن میں ترجمہ کا کہا تو وہ بھی اس نے کامیابی سے کر لیا۔
جب میرے ساتھی نے اس سے سنہ 2024 کے بہترین شطرنج کے کھلاڑی کا پوچھا تو آر ون نے ’چیس ڈاٹ کام‘ سے چوٹی کے 20 کھلاڑیوں کی فہرست مہیا کر دی۔ اس معاملے میں اس کی کارکردگی ایمیزون ایکو سے کہیں بہتر رہی کیونکہ جب الیکسا سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اس نے گیری کاسپاروف کا نام لیا جب کہ وہ سنہ 2005 میں ہی مسابقتی شطرنج سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔
جب آر ون سے چند معروف سازشی نظریات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ان سے لاتعلقی قائم رکھی۔ اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں کون جیتے گا تو اس نے اس کا جواب اس دن کے ’یوگوو‘ پول سے لے کر دیا۔
تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آر ون کو انٹرنیٹ سے چیزیں جمع کرنے میں مہارت حاصل ہے لیکن اس میں کیا ہے، وہ تو میں بھی کر لیتی ہوں۔
چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت
آر ون نے باآسانی مجھے گلاسگو میں واقع بی بی سی سکاٹ لینڈ کی عمارت کی تصاویر فراہم کر دیں جہاں میں کام کرتی ہوں تاہم جب میں نے اس سے کسی قریبی کافی شاپ کے بارے میں استفسار کیا تو اس کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی۔
پہلی بار جب میں نے پوچھا تو اس نے ایک لمحے کا وقت مانگا اور پھر 112 سیکنڈ کی خاموشی کے بعد بند ہو گیا۔
جب میں نے دوبارہ کوشش کی تو اس بار اس نے کافی برق رفتاری سے جواب دیا اور پانچ آپشنز پیش کیے۔
ان میں سے دو دکانیں تقریباً ڈھائی میل دور تھیں، ایک بند ہو چکی تھی اور ایک دکان کو میں گوگل پر ڈھونڈ ہی نہیں سکی۔
آر ون نے جو سب سے قریبی کافی شاپ بتائی وہ بھی 1.3 میل دور تھی حالانکہ عمارت کے آس پاس کئی کافی کی دکانیں ہیں۔ دو بین الاقوامی کافی چین کی دکانیں تو چند منٹ کے پیدل مسافت پر واقع ہیں۔
آر ون اپنے کیمرے کا استعمال کر تے ہوئے اپنے اردگرد کے ماحول کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم اس میں یہ بعض اوقات دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔
اس نے مجھے بتایا کہ میرے کمرے میں موجود گلدان میں پیلے رنگ کے پھول موجود ہیں جبکہ درحقیقت اس میں سفید پھول رکھے تھے۔ اس ہی طرح آر ون نے پاپڑوں کی ایک پلیٹ کو ٹارٹیلا چپس سمجھ لیا۔
جب میں نے کیمرے کا رخ اپنی جانب کیا تو اس نے مجھے ایک ’بڑی عمر کی خاتون‘ کے طور پر بیان کیا، اور جب میرے بیٹے نے غصے والا چہرہ بنایا تو اس نے حیرت انگیز طور پر اسے ’دوستانہ چہرے‘ والا لڑکا کہا۔
ایک گھنٹے کے استعمال کے دوران اس کی بیٹری 20 فیصد سے زیادہ گر گئی۔
اس کے علاوہ آپ کی تمام سرگرمیاں کلاؤڈ پر ایک اکاؤنٹ پر محفوظ ہوتی ہیں جسے ریبٹ ہول (خرگوش کا گھر) کہا جاتا ہے۔ تاہم آپ آر ون استعمال کے ذریعے اس تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
میرا ریبٹ ہول فی الحال میری اور میرے اردگرد کی بے ترتیب تصاویر سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر ان تصاویر کے کچھ اتنے ہی بے ترتیب ’میجک کیمرہ ورژنز‘ بھی ہیں۔
آر ون پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک ’اینڈرائیڈ ایپ‘ ہے۔ اینڈرائیڈ اتھارٹی کے صحافی مشال رحمان کا کہنا ہے کہ وہ آر ون میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو گوگل فون پر انسٹال کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
تاہم کمپنی اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس کے کچھ نقول موجود ہیں جن کو دوسری ڈیوائسز پر انسٹال کیا جا سکتا ہے لیکن آر ون کا کا نظام ان سے کہیں بہتر ہے۔
ریبٹ آر ون بنانے والی کمپنی پر ایک اور الزام یہ ہے کہ یہ ایک سابقہ این ایف ٹی کمپنی ہے جس نے پچھلے سرمایہ کاروں سے کیے وعدوں کو نبھائے بغیر خود کو ری برانڈ کر دیا تھا۔
اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے موجودہ ملازمین میں سے 80 فیصد سے زائد کمپنی کو ری برانڈ کیے جانے کے بعد شامل ہوئے ہیں۔
کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ کمپنی کے بانی جیسی لیو ایک جانی مانی کاروباری شخصیت ہیں جو ’اپنے کریئر کے دوران متعدد منصوبوں میں شامل رہے ہیں۔‘
کیا یہ واقعی ’سمارٹ فون کلر‘ ہے؟
مجھے اس ڈیوائس کو آزمانے میں کافی مزا آیا تاہم یہ ایسا کچھ بھی نہیں کرتا جو میں اپنے فون یا اپنی آنکھوں سے نہیں کرسکتی۔ اور اوپر سے یہ کافی سست بھی ہے۔
کئی لوگ مجھ سے متفق ہیں۔ وہ اسے ’ہاف بیکڈ‘ یعنی جلد بازی میں بنایا گیا ایک ایسا آلہ کہتے ہیں جو مبصرین کے مطابق ’تقریباً ہر چیز میں ناکام ہو جاتا ہے۔‘
کمپنی بھی اعتراف کرتی ہے کہ اس پر ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ریبٹ کے بانی جیسی لیو کا کہنا ہے کہ سٹارٹ اپ ہونے کے ناتے اس کے لیے یہ ہار جیت کا نہیں بلکہ بقا کا معاملہ ہے۔
’ایک طرح سے مجھے خوشی ہے کہ ہمیں شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمیں ہمیشہ بہتر سے اور بہتر پروڈکٹ بنانے پر مجبور کرتا ہے۔‘
آر ون کو ملنے والے ناپسندیدہ ریویوز کے بعد آپ یہ قطعی نا سمجھیں کہ اے آئی کو ہارڈ ویئر میں شامل کرنے کی کوششوں میں کمی آئے گی۔
سی سی ایس انسائٹ سے تعلق رکھنے والے بین ووڈ سمارٹ فون انڈسٹری پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے 18 مہینوں میں ریبٹ آر ون جیسے مزید آلات مارکیٹ میں آنے کی توقع ہے۔
ان کو یقین ہے کہ مستقبل قریب میں بننے والے سمارٹ فون ایسی تمام نرالی مصنوعات سے بالاتر رہیں گے کیونکہ ان سمارٹ فونز میں اے آئی سے چلنے والی ان مصنوعات کی تمام صلاحیتیں شامل کی جائیں گی۔
اور مجھے یہ پیشین گوئی اچھی لگی ہے۔
میرا فون نہ صرف وہ تمام چیزیں کرسکتا ہے، آر ون جس کے قابل ہے بلکہ اس سے بہت بہتر کر سکتا ہے۔
اگر ’سمارٹ فون کے قاتل‘ کہلائے جانے والے ڈیوائس سے میں نے کچھ سیکھا ہے تو بس اپنے فون کی مزید قدر کرنا۔