آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان روپے اور ڈالر کی قدر کے تعین کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔
آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے بجٹ کیلیے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 16 فیصد گراوٹ کے ساتھ 328.4 روپے مقرر کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن پاکستان نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے 3.5 فیصد گراوٹ کے ساتھ روپے کی قدر 295 روپے مقرر کی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں اس حوالے سے آئی ایم ایف کے تخمینے غلط ثابت ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف نے رواں ماہ جون کیلیے ڈالر کا ریٹ 300 روپے ہونے کا اندازہ لگایا تھا، لیکن اس وقت ڈالر 278.10 روپے پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
وزارت منصوبہ بندی کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے اگلے مالی سال کے دوران روپے پر دباؤ برقرار رہے گا،
واضح رہے کہ حکومت کو اگلے مالی سال کے دوران 6 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے، حکومت کو ورلڈ بینک سے 2.5 ارب ڈالر جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 1.6 سے 1.8 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ ان قرضوں اور آئی ایم ایف پروگرام کی مدد سے حکومت روپے کی قدر کو قابو کرسکتی ہے،
حکومت کیلیے دفاعی بجٹ، فارن ڈیبٹ سروسنگ، غیرممالک میں پاکستانی مشن چلانے کی لاگت اور پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے اخراجات کیلیے حکومت کا جاری کردہ ریٹ بہت اہم ہے۔
حکومت کو توقع ہے کہ وفاقی منصوبوں کی فنانسنگ کی صورت میں حکومت کو 1.7 ارب ڈالر کے فنڈز مل جائیں گے، تاہم، ڈالر کے ریٹ میں کوئی بھی اتار چڑھاؤ پورے بجٹ کو غیر حقیقی بنا دے گا اور پھر حکومت کو ضمنی گرانٹس کی ضرورت پڑے گی،
حکومت نے اگلے مالی سال کیلیے ڈالر کی قیمت 290 روپے تک جانے کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ رواں مالی سال کے دوران ڈالر کی ایوریج قیمت 285 رہی ہے اور جمعے کو انٹر بینک میں ڈالر کا ریٹ 279 روپے تھا۔
وزیرخزانہ 10 جون کو بجٹ کا اعلان کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وزیراعظم کے دورہ چین کی وجہ سے بجٹ 10 جون سے لیٹ بھی ہوسکتا ہے،
اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترتا ہے تو جولائی تک اسٹاف لیول معاہدہ ہوسکتا ہے، بروقت معاہدے سے کرنسی پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔