وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایوننگ پروگرام میں اساتذہ کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی جامعہ میں تدریسی معیارات پر سمجھوتے کا سبب رہی اور یہ معاملہ نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کے لیے چیلنج ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ فنڈز کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے مدد مانگی ہے اور ان کی طرف سے مثبت جواب ملا ہے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایوننگ پروگرام کے اساتذہ کو معاوضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ کئی شعبوں میں سینیئر اساتذہ کے نہ پڑھانے اور شعبوں کو مکمل طور پر کم تجربے کار وزیٹنگ فیکلٹی کے حوالے کیے جانے سے کلاسز میں ایجوکیشن کوالٹی مسلسل کمپرومائز ہو رہی ہے۔
ایوننگ پروگرام کے شعبہ جات میں بیشتر ریگولر اساتذہ نے تدریسی سلسلے سے خود کو علیحدہ کرلیا ہے جبکہ کئی جزوقتی اساتذہ نے بھی عدم ادائیگیوں کے سبب کلاسز لینا چھوڑ دی ہیں اور یہ صورت حال موجودہ نئے وائس چانسلر کے چارج سنبھالنے پرانہیں وراثت میں ملی ہے۔
شعبہ کامرس کے ایک استاد نے بتایا کہ”انہیں ایک سال کی ادائیگی نہیں کی گئی اور اب وہ ایوننگ میں پڑھانا چھوڑ چکے ہیں جبکہ دو ماہ کی تنخواہ اور تین ماہ کی ہاؤس سیلنگ کی ادائیگی بھی ابھی باقی ہے”۔
ادھر یونیورسٹی انتظامیہ نے عملی طور پر جنوری سے شروع کیے گئے سیمسٹر کو بریک لگا دیا ہے، یکم مئی سے پریکٹیکل اور 15 مئی سے امتحانات شروع کرنے کی ہدایت دے دی ہے جبکہ یونیورسٹی میں ایوننگ پروگرام کے رواں سیمسٹر میں عملی طور پر صرف 3 ماہ کی کلاسز ہوسکی ہیں اور تین ماہ کی تدریس کے بعد امتحانات لیے جارہے ہیں۔
یونیورسٹی میں یہ حالات گزشتہ کم از کم دو برسوں سے جاری ہیں، جس میں روز بروز شدت آرہی ہے جبکہ پرانی ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے نئے وائس چانسلر کے دور میں بھی اس میں فی الحال کوئی خاطر خواہ بہتری پیدا نہیں ہوسکی ہے اور انتہائی محتاط الفاظ کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وفاقی سطح پر قائم اردو یونیورسٹی کا ایوننگ پروگرام ایک ایسے سرکاری اسکول کی طرح چلایا جارہا ہے جہاں غیر رسمی تعلیم دی جاتی ہو۔
یونیورسٹی کے شعبہ مالیات کے ذرائع کے مطابق نئے وائس چانسلر کے آنے کے بعد چند اساتذہ کو ایک ساتھ دو ماہ کی ادائیگیاں تو کی گئی ہیں لیکن ان کی واجب الادا رقوم دو سال یا اس سے بھی زائد عرصے کی ہیں جبکہ اب یونیورسٹی کے مستقل ملازمین(تدریسی و غیر تدریسی) عملے کی دو ماہ کی تنخواہیں اور 3 یا 4 ماہ کی ہاؤس سیلنگ کی رقم اب بھی واجب الادا ہے۔
اردو یونیورسٹی سائنس کیمپس کے ایک سینیئر استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایوننگ پروگرام میں سیمسٹر کلاسز باقاعدہ طور پر 13 دسمبر کو شروع ہوجانی چاہیے تھیں تاہم کم از کم گزشتہ دو برسوں سے معاوضوں کی عدم ادائیگیوں کے سبب بڑی تعداد میں اساتذہ کلاسز میں جانے کو تیار نہیں تھے اور سیمسٹر وقت پر شروع ہونے کے بجائے کئی شعبوں میں کلاسز جنوری سے شروع ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مارچ میں رمضان کے باوجود ہر سال کے برعکس انتظامیہ نے سیمسٹر کلاسز معطل نہیں کیں لیکن عملی طور پر شام کی کلاسز نہیں ہوسکیں اور اب اپریل میں چند روز کی کلاسز کے بعد یکم مئی سے پریکٹیکل اور 15 مئی سے امتحانات کی تاریخ دے دی گئی۔
مذکورہ استاد کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں کورس لوڈ مکمل کیا گیا ہو اور اب طلبہ کو ادھورے کورسز کے ساتھ امتحانات میں بھیجا جا رہا ہے یہ طلبہ اسی طرح ڈگری لے کر فارغ التحصیل بھی ہوجائیں گے”۔
جب یونیورسٹی کی اس صورتحال پر دو ماہ قبل تعینات ہونے والے نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی بدترین مالی خسارے میں ہے، ایوننگ میں پڑھانے والوں کو دو سال سے ادائیگیاں نہیں کی گئی تھیں۔
وائس چانسلر نے کہا کہ ہم دو ماہ میں اسے کس طرح کلیئر کرسکتے ہیں جبکہ تنخواہوں میں 50 فیصد تک اضافے کے باوجود ایچ ای سی نے 5 سال سے یونیورسٹی کا فنڈ نہیں بڑھایا ہے ہم نے نئے یا رواں سیمسٹر سے اساتذہ کو حالیہ ادائیگیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
ڈاکٹرضابطہ خان شنواری نے انکشاف کیا کہ انہوں نے حکومت سندھ سے گزارش کی ہے کہ ہر چند کہ یہ یونیورسٹی وفاق کے زیر اہتمام ہے لیکن اس یونیورسٹی کو بچانے کے لیے ہماری مدد کریں یہاں سندھ کے بچوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے لہٰذا ان بچوں کی خاطر دیگر صوبائی جامعات کی طرز پر ہمیں بھی فنڈ جاری کریں۔
وائس چانسلر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے اس خط کا مثبت جواب آیا ہے اور آئندہ ہفتے انہوں نے ملاقات کا وقت دیا ہے ہمیں حکومت سندھ سے بہت امیدیں ہیں”۔
ادھریونیورسٹی کے ایک اور استاد کا ایوننگ پروگرام کے نئے سیشن کے حوالے سے کہنا تھا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن اور کمپیوٹر سائنس دو ایسے شعبہ ہیں جہاں عدم ادائیگیوں کے سبب ریگولر اساتذہ کی اکثریت ایوننگ پروگرام میں نہیں پڑھاتی اور باہر سے وزیٹنگ فیکلٹی لائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگیاں نہیں ہوں گی تو یہ سن کر تجربہ کار اساتذہ تو معذرت کرلیتے ہیں لیکن ایسے چند اساتذہ پڑھانے کو تیار ہوجاتے ہیں جنہیں معاوضے سے زیادہ تدریسی تجربہ درکار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار بھی نئے سیشن کی کلاسز مذکورہ دونوں شعبوں میں اسی لیے وقت پر شروع نہیں ہوسکیں تھیں۔