بجلی مہنگی ہونے اور سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کے باعث ملک میں سولر کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں صارفین تیزی سے سولر بجلی کے نظام کی طرف راغب نظر آرہے ہیں۔ صارفین کی تعداد 55ہزارسے بڑھ کر ایک لاکھ 15 ہزار سے تجاوز کرگئی، ملک میں نیٹ میٹرنگ کا حجم 1735 میگاواٹ تک پہنچ گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق بجلی خریدنے والے نہ رہے تو حکومت کے لیے پریشانی بڑھ گئی اور حکام نے نیٹ میٹرنگ میں صارفین کو ملنے والے بجلی کے نرخ کم کرنے کی تیاری کرلی ہے۔
خیال رہے کہ نیٹ میٹر نگ میں اس وقت صارفین کو 21 روپے فی یونٹ مل رہے ہیں لیکن یہ نرخ کم کر کے 11 روپے فی یونٹ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ نرخوں میں اس بھاری کمی سے صارفین کو 10 روپے فی یونٹ کا نقصان ہوگا۔
حکومت کو پریشانی یہ ہے کہ اسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو کپیسٹی چارجز کی مد میں مخصوص رقم ادا کرنی ہوتی ہے خواہ وہ ان سے بجلی خریدے یا نہ خریدے۔ بڑے پیمانے پر سولر پینلز نصب کیے جانے کے باعث کپیسٹی چارجز کی ادائیگی کے حوالے سے حکومت کا پلان عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے۔
پاور ڈویژن حکام کا مؤقف ہے کہ صارفین نے سولر سسٹم اپنی ضرورت کے لیے لگائے ہیں لہذا جو اضافی بجلی پیدا ہو رہی ہے اس کی واپس خریداری کے نرخ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی قوت خرید کے مطابق ہونے چاہیں۔
پاکستان میں نیٹ میٹرنگ کا اغاز 2015 میں ہوا تھا اور ابتدا میں صارفین سے خریدی کے بجلی کے نرخ کافی کم تھے 2022 میں اس ریٹ میں اضافہ کیا گیا لیکن پھر گزشتہ برس یعنی 2023 سے نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کی بازگشت سنائی دینے لگی۔
خیال رہے کہ نیٹ میٹرنگ ایک بلنگ مکینزم ہے جس کے ذریعے بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین کوسولر یا ونڈ پاور کے ذریعے پیدا کردہ بجلی جو وہ گرڈ میں ڈالتے ہیں کیلئے کریڈٹ دیا جاتا ہے۔