وفاق کا ’’کاربن لیوی‘‘ کا تصور
حکومت آئندہ بجٹ 2024-25 میں کاربن ٹیکس لگانے پر غور کر رہی ہے تاکہ معدنی تیل کی طلب کی روک تھام کی جاسکے نیز ٹیکس میں صوبائی شیئر سے جان چھڑائی جاسکے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگانے کے بجائے پاکستانی حکام نے 2024-25کےلیے ’ کاربن لیوی کی شکل میں ایک نیا تصور پیش کیا ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات ہی نہیںبلکہ کاربن کا اخراج کرنے والی ہرچیز پر ٹیکس لگایاجائےگاتاکہ ان کی طلب کم ہوسکے۔
اس پر حکومت نے20سے 30فیصد کاربن ٹیکس لگانے کا متبادل تصور ، آئندہ بجٹ دستاویز میں ٹیکس لگانے کا اختیار لیاجائیگا۔
واضح رہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر مارچ 2022سے پہلے بھی سیلز ٹیکس عائد تھا جسے اس وقت کی حکومت نے ختم کردیا تھا۔
اعلیٰ ذرائع نے تصدیق کی کہ ’’کاربن ٹیکس پٹرولیم مصنوعات اور معنی تیل کی درآمد کے مرحلےپر لگائے جانے کا امکان ہے۔ یہ کاربن لیوی کی صورت میں ہوسکتا ہے اور وفاقی حکومت اس سے اکٹھی ہونے والی رقم کو اکٹھا بھی کریگی اور اسے این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاقی قابل تقسیم پول کا حصہ بنانے سے بچا کر اپنے اخراجات کیلئے استعمال کرے گی۔
حکومت 2024-25کے بجٹ بل میں یہ تجویز شامل کر سکتی ہے کہ اسے پٹرولیم مصنوعات کے فی لٹر پر 20سے 30 روپے کاربن لیوی لگانے کا اختیار دیاجائے اور اگرکوئلے کا معاملہ ہو تو اس میں ایک مخصوص حد تک اضافہ کیاجاسکےتاکہ صاف آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی اشیاکی طلب کو کم کیاجاسکے۔
کاربن ٹیکس کی سماجی قیمت کاربن کے اخراج کو محدودکرنے کا ایک ضروری پالیسی ٹول ہوگا ؛ کاربن کے اخراج کی زیادہ قیمتوں سے طلب کو کم کیاجائےگا،
عمومی طور پر یہ ٹیکس معدنی ایندھن پر لگایاجاتا ہے۔چند ممالک پہلے ہی یہ ٹیکس لگاچکے ہیں اور دیگر ممالک میں یہ ٹیکس عائد کرنے پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔
عالمی سطح پر بھی یہ ٹیکس لگانے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔اس کے باوجود حکومتیں ٹیکس کے علاوہ اقدامات کے حوالے سے دلچسپی کے رہی ہیں تاکہ کاربن کے اخراج کو محدود کیاجاسکے۔
وہ ممالک جن میں کاربن ٹیکس لگایا گیا ہے وہاں ان کی سطح میں بڑا فرق ہے جبکہ اس کے پہلو بہ پہلو دیگر اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔