فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی انکوائری میں ایک تجارتی کمپنی ’وکی ٹریڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کی جانب سے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کا پتا چلا ہے، یہ کمپنی مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن سے وابستہ ہے جوکہ ملک کے معروف ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز میں سے ایک ہے۔
دستیاب دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ مذکورہ تجارتی کمپنی کے خلاف کسٹم، ٹیکسیشن اور انسداد اسمگلنگ کی خصوصی عدالت میں انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ (اے ایم ایل اے) 2010 کے تحت کارروائی جاری ہے۔
ایف بی آر کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک بھر کے مختلف بینکوں میں ’وکی ٹریڈنگ کمپنی‘ کے 18 اکاؤنٹس ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ کمپنی نے اپنے جواب میں اعتراف کیا کہ تمام 18 اکاؤنٹس کا انحصار صرف بحریہ ٹاؤن پر ہے اور دونوں کمپنیوں میں تمام ڈائریکٹرز فیملی ممبرز ہیں۔
رپورٹ میں بحریہ ٹاؤن سے وکی ٹریڈنگ لمیٹڈ کے بینک اکاؤنٹس میں 319 ارب روپے کے فنڈز کی لین دین کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، جس کے مطابق یہ لین دین 2014 سے 2018 کے درمیان ہوئی۔
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 23 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری یکم جولائی 2019 کو ایف بی آر کے انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ان لینڈ ریونیو) کے انسپکٹر محمد اعجاز کی جانب سے درج کی گئی شکایت کے جواب کے طور پر شروع کی گئی تھی۔
انسپکٹر محمد اعجاز کا الزام ہے کہ وکی ٹریڈنگ کمپنی کے ڈائریکٹرز بحریہ ٹاؤن کی جانب سے زمین کی خریداری کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
انکوائری میں نشاندہی کی گئی کہ کمپنی اور اس کے ڈائریکٹرز کے اکاؤنٹ میں مختلف بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں جن کی آڑ میں بنیادی طور پر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی گئی۔
انکوائری میں وکی ٹریڈنگ کمپنی کے ڈائریکٹرز پر جان بوجھ کر اثاثے چھپانے، اربوں روپے کی لین دین ظاہر نہ کرنے اور ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابتدائی انکوائری کے بعد ملزمان کو اے ایم ایل اے 2010 کی دفعہ 9 کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیے گئے۔
تحقیقاتی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تجارتی کمپنی بنیادی طور پر تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دوسری کمپنیوں کی جانب سے زمین خریدنے اور اپنی زیرملکیت رکھنے میں مصروف ہے۔
تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا کہ مذکورہ کمپنی نے اپنے تحریری جوابات میں اعتراف کیا کہ اس نے دیگر اداروں کے ذریعے اسے منتقل کیے گئے فنڈز سے اپنے نام پر کوئی زمین نہیں خریدی اور نہ ہی اپنی زیرملکیت رکھی ہے۔
یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ فنڈز ٹی ڈی آرز کی خریداری کے لیے استعمال کیے گئے اور بعد میں بظاہر کسی اقتصادی وجوہات کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو واپس بھیج دیے گئے۔
تفتیش سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کمپنی صرف ڈائریکٹرز یا نامزد افراد کے ذریعہ چلائی جارہی ہے، اس کے پے رول پر کوئی عملہ یا ملازم نہیں ہے، دوسری کمپنیوں کی جانب سے زمین خریدنے/ زیرملکیت رکھنے کے لیے کمپنی کے لیے ضروری ہے کہ کمپنی اپنے پے رول پر عملہ/ملازمین رکھے تاکہ لین دین کا حساب کتاب اور ریکارڈ رکھا جا سکے۔
ملازمین کی یہ عدم موجودگی ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے اور حقیقی ذرائع کو چھپانے کے لیے ادائیگیوں کو قرض کی مد میں موصول ادائیگی کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے ڈائریکٹرز کی اسکیم کو ظاہر کرتی ہے۔
دستاویزات سے پتہ چلا کہ مذکورہ کمپنی نے غیر واضح ذرائع سے ٹیکس ادا کیے بغیر رقم وصول کی تاکہ اسے چھپایا جا سکے اور واپس بحریہ ٹاؤن کو قرض/پیشگی ادائیگی کی صورت میں ٹیکس شدہ رقم کے طور پر ظاہر کیا جا سکے، جس میں اصل رقم اور سود بھی شامل ہے۔
تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ملزمان آمدنی چھپانے کے پیشگی جرم کے ذریعے منی لانڈرنگ کے جرم میں ملوث ہیں کیونکہ ان کے پاس کسی واضح ذرائع سے فنڈز کی وصولی کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے۔
’وکی ٹریڈنگ کمپنی‘ نے اپنے دفاع میں ایف بی آر کو جواب دیا کہ تحقیقات سال 2017 کے بعد کے ریکارڈ کی ہوسکتی تھیں، تاہم اس نے اے ایم ایل اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سال 2013 سے ریکارڈ کی جانچ کی۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ کمپنی ایک معروف اور ریاست کی پاسداری کرنے والا ادارہ ہے، کمپنی نے ان تحقیقات کو ’ہراساں‘ کرنے کے مترادف قرار دیا۔
کمپنی نے دعویٰ کیا کہ وہ کاروبار کر رہے ہیں اور قومی خزانے میں بھاری ٹیکسوں کی شکل میں محصولات کا اضافہ کر رہے ہیں، اے ایم ایل اے کا اطلاق خاص طور پر حقیقی ٹیکس دہندگان پر نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ کسٹم، ٹیکسیشن اور اینٹی منی لانڈرنگ کی خصوصی عدالت وکی ٹریڈنگ کمپنی کے تمام ڈائریکٹرز وقاص رفعت، وسیم رفعت، بلال بشیر اور محمد اویس کے خلاف سیکشن 3، 4 اور سیکشن 12اے کے تحت مقدمات کی سماعت کر رہی ہے، اسپیشل جج سید عرفان حیدر اس معاملے کی سماعت کر رہے ہیں۔
تاہم مقدمے کی سماعت سست رفتاری سے جاری ہے کیونکہ عدالت نے ملزمان کو نوٹس جاری کیے ہیں جس میں اب تک مزید پیش رفت نہیں ہوئی۔