سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ایف بی آر کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق 4سی کے تحت سپر ٹیکس کی وصولی سے متعلق حکم امتناع جاری کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا، یہ شق فنانس ایکٹ 2023 میں ترمیم کے تحت تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا عبوری حکم معطل کرتے ہوئے جسٹس سید منصور علی شاہ نے 4صفحات پر مشتمل آرڈر میں کہا کہ ہم احترام کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے نوٹس دیے بغیر اور متعلقہ قانونی افسر کو سننے کا موقع فراہم کیے بغیر غیر ضروری جلدی میں عبوری حکم امتناع جاری کیا۔ صرف اس موروثی خرابی کے باعث ہی عبوری حکم امتناعی مستحق ہے کہ اسے سائیڈ پر رکھ دیا جائے۔
ہائیکورٹ کے حکم نامے کے خلاف ایف بی آر کی پٹیشن پر جسٹس منصور شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ آرڈر میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی عبوری ریلیف کی درخواستوں پر فیصلہ آئین کے آرٹیکل 199فور کے تحت ہائیکورٹ کی جانب سے شفاف اور منصفانہ موقع فراہم کئے جانے کے بعد کیا جائے گا۔ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199فور بی ٹو کی شرائط کے مطابق آرڈر یا کارروائی کی نشاندہی بھی کرے گی۔
ہائیکورٹ درخواست گزار کے وکیل کے دوسرے تنازع پر بھی سماعت کرے گی جس میں اس کے بیان کردہ قانون کی روشنی میں ایک عبوری حکم کے ذریعہ قانونی سازی کو معطل کرنے کی بات کی گئی تھی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کیونکہ معاملہ عوامی آمدنی کے جمع کرنے اور اس کے جائزہ لینے کا ہے تو ہم توقع کرتے ہیں کہ ہائیکورٹ نہ صرف عبوری ریلیف کی درخواستوں بلکہ رٹ پٹیشنوں کا بھی ہر ممکن حد تک تیزی سے فیصلہ کرے گی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ حالیہ درخواستوں نے ہائیکورٹ کے عبوری حکم کو چیلنج کیا ہے اور ہم اس عدالت کی مروجہ پالیسی اور پریکٹس کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں جس کے تحت یہ عدالت عام طور پر ہائیکورٹس کے عبوری حکم ناموں میں مداخلت نہیں کرتی۔ ایسی مداخلت غیر معمولی حالات میں ہی کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایسے کیسوں میں جن میں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہو، دائرہ اختیار کی واضح غلط استعمال ہو یا سنگین ناانصافی ہو۔
حالیہ کیس میں بھی غیر معمولی حالات تھے جن میں مبینہ طور پر آئینی ضروریات کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اسی لیے ہم نے حکم امتناعی کا میرٹ پر جائزہ لینے کا قدم اٹھایا۔