چین نے امریکی کانگرس میں ٹِک ٹاک مخالف بِل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ناانصافی قرار دیا ہے۔ امریکہ میں پچھلے کئی برسوں سے چینی کمپنی کی ملکیت سوشل میڈیا کمپنی ٹک ٹاک کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
متعدد مغربی ممالک میں حکام، سیاستدانوں اور سکیورٹی سٹاف پر اپنے موبائل فونز میں ٹِک ٹاک انسٹال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ٹِک ٹاک کے حوالے تین سب سے بڑے سائبر خدشات کون سے ہیں اور ٹاک ٹاک کمپنی اس حوالے سے کیا مؤقف رکھتی ہے؟
صارفین کا ڈیٹا جمع کرنا
سوشل میڈیا کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کی ایپ کا صارفین کا ڈیٹا جمع کرنے کا عمل ’انڈسٹری میں نافذ العمل‘ پریکٹس سے مطابقت رکھتا ہے۔
ٹِک ٹاک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کمپنی بڑے پیمانے پر صارفین کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اکثر جولائی 2022 میں آسٹریلیا کی سائبر کمپنی ’انٹرنیٹ 0۔2‘ کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
ٹِک ٹاک کے سورس کوڈ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپ ’بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع‘ کرتی ہے۔
سائبر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک صارفین کی لوکیشن، ڈیوائس کی قسم اور اس ڈیوائس میں مزید کون سی ایپس موجود ہیں اس حوالے سے بھی معلومات جمع کرتا ہے۔
لیکن ’سٹیزن لیب‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ٹِک ٹاک ’دیگر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرز پر ہی اُسی قسم کا ڈیٹا جمع کرتی ہے جس سے صارفین کے موڈ کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکے۔‘
جارجیا انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی جانب سے ایک ایسی ہی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’بنیادی نقطہ یہ ہے کہ دیگر سوشل میڈیا اور موبائل ایپس بھی اسی طرح کام کرتی ہیں۔‘
جاسوسی کے لیے ٹِک ٹاک کا استعمال
ٹِک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر ایک آزاد کمپنی ہے اور ان کی جانب سے ’چینی حکومت کو کبھی بھی صارفین کا ڈیٹا مہیا نہیں کیا گیا اور اگر ہم سے مانگا بھی جاتا تب بھی ہم نہیں دیتے۔‘
ماہرین کے لیے یہ بات پریشان کُن ضرور ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم سوشل میڈیا ایپس کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو بڑے پیمانے پر اپنا نجی ڈیٹا بھی ان کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ کمپنیاں ہمیں مفت میں اپنی سروسز فراہم کر رہی ہوتی ہیں اور اس کے بدلے میں ہمارے متعلق معلومات حاصل کر رہی ہوتی ہیں تاکہ وہ ہمارے رجحانات جان کر ہمیں اشتہارات دِکھا سکیں۔ یا پھر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ ہمارا ڈیٹا کسی دوسری کمپنی کو فروخت کر دیتے ہیں جو کہ انٹرنیٹ پر کسی اور مقام پر ہمیں اپنے اشتہارات دِکھانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ناقدین کو ٹِک ٹاک سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ بیجنگ میں واقع کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کی ملکیت ہے اور واحد سوشل میڈیا سٹریمنگ ایپ ہے جس کا تعلق امریکہ سے نہیں۔
اس کے علاوہ مثال کے طور پر فیس بُک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب بھی ٹِک ٹاک کی طرح ہی صارفین کا ڈیٹا حاصل کرتی ہیں لیکن یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز امریکی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔
برسوں میں امریکی قانون دانوں کی طرح باقی دُنیا نے بھی یہ فرض کرلیا ہے کہ امریکی سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے جمع کیا گیا صارفین کا ڈیٹا کسی بُرے کام کے لیے استعمال نہیں ہوگا جس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔
سنہ 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں جاری ہونے والے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا تھا کہ ٹِک ٹاک کی جانب سے جمع کیا گیا ڈیٹا چین کو ’سرکاری حکام اور ٹھیکے داروں کی لوکیشن ٹریس کرنے، بلیک میلنگ کے لیے معلومات جمع کرنے اور کاروباری جاسوسی‘ کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
لیکن اب تک جو ثبوت منظرِ عام پر آئے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ تمام تحفظات صرف فرضی ہی لگتے ہیں لیکن 2017 میں چین میں ایک غیرواضح قانون کی منظوری کے سبب ہی ان خدشات کو ہوا ملی ہے۔
چین کے نیشنل انٹیلیجنس قانون کے آرٹیکل سات کے مطابق تمام چینی کمپنیاں اور شہری اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ملک کی انٹیلیجنس سرگرمیوں کی ’حمایت کریں، مدد کریں اور اس میں تعاون کریں۔‘
وہ لوگ جو ٹِک ٹاک کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں وہ چین کے اس ہی قانون کی مثال دیتے ہیں۔
لیکن جارجیا انسٹٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک محققین کا کہنا ہے کہ چین کے اس قانون میں شامل ایک جملے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسی قانون میں نجی کمپنیوں اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی لکھا گیا ہے۔
سنہ 2020 سے ٹِک ٹاک کے حکام کی جانب سے متعدد بار لوگوں کو یقین دہاںی کروائی گئی ہے کہ کمپنی کے چینی سٹاف کو دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن 2022 میں ’بائٹ ڈانس‘ نے خود اعتراف کیا تھا کہ بیجنگ میں موجود کمپنی کے ملازمین نے امریکہ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دو صحافیوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی تھی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کمپنی کے ملازمین سے ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں یا نہیں۔
ٹِک ٹاک کی ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جن چینی ملازمین نے اس ڈیٹا تک رسائی حاصل کی تھی انھیں ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ صارفین کا ڈیٹا کبھی بھی چین میں محفوظ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی جانب سے امریکی صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے امریکی ریاست ٹیکساس اور یورپ میں ڈیٹا سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔
ٹِک ٹاک کو ’ذہن سازی‘ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟
ٹِک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے لاگو کیے گئے قوانین ’ایسی کسی بھی غلط معلومات پر پابندی عائد کرتے ہیں جن سے کسی بھی کمینوٹی یا لوگوں کو نقصان پہنچے۔‘
نومبر 2022 میں فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے امریکی اراکینِ کانگریس کو بتایا تھا کہ: ’چینی حکومت (ٹِک ٹاک کے) الگوریتھم کو کنٹرول کرسکتی ہے جس کا استعمال ذہن سازی کے آپریشنز میں کیا جا سکتا ہے۔‘
اس کے بعد سے اس دعوے کو بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔
’بائٹ ڈانس‘ کی ایک اور ایپ ’ڈوین‘ صرف چین میں استعمال کی جاتی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سوشل میڈیا ایپ پر بدترین سینسرشپ کے ذریعے نوجوان نسل کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔
چین میں تمام سوشل میڈیا پیلٹ فارمز کو سینسرشپ کا سامنا ہے اور ان پیلٹ فارمز پر انٹرنیٹ پولیس کی جانب سے چینی حکومت کے خلاف تنقید اور ایسی بھی کوئی بھی چیز جس سے سیاسی انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو حذف کر دی جاتی ہے۔
ٹِک ٹاک کے عروج پر پہنچنے کے بعد اب تک سینسرشپ کے بہت سے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ امریکہ میں ایک ٹِک ٹاک صارف کا اکاؤنٹ صرف اس لیے معطل کردیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے چینی مسلمانوں کے ساتھ حکومتی رویے پر تنقید کی تھی۔
’سٹیزن لیب‘ کے محققین کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک اور اور ڈوین کی پالیسی میں فرق واضح ہے اور ٹِک ٹاک کی جانب سے سیاسی سینسرشپ میں گریز سے کام لیا جاتا ہے۔
محققین نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’ٹِک ٹاک کی جانب سے سینسرشپ پالیسی نافذ نہیں کی گئی۔‘
اس حوالے سے جارجیا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ انھوں نے ٹِک ٹاک پر تائیوان کی آزادی اور چینی صدر شی جن پنگ کے حوالے سے لطیفے بھی سرچ کیے اور انھیں معلوم ہوا کہ: ’اس کیٹگری کی تمام ویڈیوز ٹِک ٹاک پر آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کافی مقبول ہیں اور بڑے پیمانے پر شیئر بھی کی جاتی ہیں۔‘
کیا اس ایپ پر پابندی لگ سکتی ہے؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹِک ٹاک شاید ابھی نقصان دہ نہ محسوس ہو لیکن مثال کے طور پر کسی بھی جنگی صورتحال میں اس کا استعمال ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر ہو سکتا ہے۔
انڈیا میں ٹِک ٹاک اور دیگر درجنوں چینی ایپس پر 2020 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔
لیکن امریکہ کی جانب سے متوقع پابندی کا ٹِک ٹاک پر زیادہ اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ کے اتحادی بھی اس کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہیں۔
ایسا ماضی میں اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب امریکہ نے چینی کمپنی ’ہواوے‘ کو فائیو جی انفراسٹرکچر کے منصوبے کا حصہ بننے سے روکا تھا۔
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ چینی صارفین بھی برسوں سے امریکی سوشل میڈیا ایپس کو استعمال کرنے میں پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔