ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کےحوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مختصر تحریری رائے جاری کر دی۔
متفقہ تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی عدلیہ کا فرض ہے، بطور جج ہمارا فرض ہے کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق بلا خوف و رغبت انصاف کریں، ہماری عدالتی تاریخ میں ایسے کچھ مقدمات ہیں جن کے بارے میں عوام سمجھتے ہیں کہ خوف کی بنیاد پر فیصلے دیے گئے۔
عدالتِ عظمیٰ کے لارجر بینچ کا متفقہ تحریری رائے میں کہنا ہے کہ ایسے فیصلوں میں قانون کے مطابق انصاف نہیں کیا گیا، خود احتسابی کے لیے انتہائی عاجزی سے ماضی کے غلط اقدامات اور غلطیوں کا سامنا کرنا چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر درست سمت میں نہیں جا سکتے، آرٹیکل 186 کے تحت کسی بھی عوامی مفاد سے متعلق قانونی سوال پر صدارتی ریفرنس پر رائے دینا ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے متفقہ تحریری رائے میں کہا ہے کہ ہمارے سامنے سوال تھا کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل ملا؟ سوال تھا کہ بھٹو ٹرائل کے دوران ڈیو پراسس اور فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے؟ صدارتی ریفرنس سے فوجی آمر ضیاء الحق کی حکومت میں بھٹوکی سزائے موت کے ٹرائل کو جانچنے کا موقع ملا۔
متفقہ تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس بھٹو کی سیاسی جماعت کے دورِ حکومت میں داخل کیا گیا، اس کے بعد نگراں حکومتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئیں لیکن کسی جماعت نے ریفرنس واپس نہیں لیا، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ عوام کی خواہش تھی کہ عدالت اس پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔
سپریم کورٹ کا متفقہ تحریری رائے میں کہنا ہے کہ ملک کے بڑے قانونی ماہرین کی معاونت سے عدالت اپنی مختصر رائے دیتی ہے، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل 4، 9 10 اے کے مطابق نہیں تھی، آئین و قانون میں ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں کہ اس اختیارِ سماعت میں بھٹو فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
متفقہ رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے نظرِ ثانی مسترد ہونے کے بعد فائنلٹی اختیار کر چکا ہے، یہ سوال کہ کیا ٹرائل کے دوران جو مواد و شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پر بھٹو کو سزائے موت دی جا سکتی تھی، عدالت کی رائے ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا مشاورتی اختیارِ سماعت ہے، اس اختیارِ سماعت کے تحت عدالت شہادتوں کا دوبارہ جائزہ لے کر فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔
عدالتِ عظمیٰ کے لارجر بینچ کا متفقہ تحریری رائے میں کہنا ہے کہ عدالت فیئر ٹرائل نہ ہونے کے حوالے سے بڑی آئینی و قانونی خامیوں کی تفصیلی وجوہات میں نشاندہی کرے گی، اسلامی تناظر میں بھٹو ٹرائل کا جائزہ لینے کے سوال پر عدالت کو معاونت فراہم نہیں کی گئی، معاونت فراہم نہ ہونے پر نا مناسب ہو گا کہ عدالت اس قانونی سوال پر اپنی رائے دے۔