الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف کا نیا چہرہ) کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے لیے درخواست پر اپنا محفوظ کردہ فیصلہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد سنائے جانے کا امکان ہے۔
الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ اس محفوظ فیصلے کا اعلان اگلے ہفتے، غالباً پیر کو کیا جائے گا۔
نامکمل اسمبلی کے ذریعہ وزیراعظم کا انتخاب ایک نئے تنازع کو جنم دینے والا ہے کیونکہ اس پورے عمل کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھیں گے۔
سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی نے اپنے انتخابی نشان کے بغیر انتخابات جیتنے کے بعد شمولیت اختیار کی تھی، بعدازاں سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں بلوچستان کے سوا قومی اور 3 صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے اس درخواست پر اس وقت تک غور نہیں کیا جب تک سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کے خلاف درخواستوں کا ڈھیر نہ لگ گیا جس میں یہ کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی نہیں ہے اور اس نے مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔
سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے خلاف درخواستوں کی 2 روز سماعت کے بعد ان درخواستوں کو سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا اور کچھ دیگر پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے ایک روز قبل بدھ کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جس سے تنازع مزید شدت اختیار کر گیا، نتیجتاً الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے میں تاخیر پر تنقید کی گئی کیونکہ اس تاخیر کے سبب ایک نامکمل اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کی راہ ہموار ہوئی۔
آئین کے آرٹیکل 51 (1) میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی میں ارکان کے لیے 336 نشستیں ہوں گی جن میں خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے کل 226 مخصوص نشستوں میں سے 78 کی الاٹمنٹ کو روک رکھا ہے، طے شدہ فارمولے کے تحت یہ تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی ہیں۔
قومی اسمبلی میں خواتین کی کل 60 مخصوص نشستوں میں سے الیکشن کمیشن نے اب تک 40 نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں کو مختص کی ہیں، ان میں پنجاب کی کل 32 نشستوں میں سے 20، خیبرپختونخوا کی 10 میں سے 2، سندھ کی تمام 14 اور بلوچستان کی چاروں نشستیں شامل ہیں، اسی طرح الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص 10 نشستوں میں سے اب تک 7 نشستیں مختص کی ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لیے کل 66 مخصوص نشستوں میں سے 42 نشستیں اور 8 میں سے 5 اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جاچکی ہیں۔
سندھ اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے مخصوص 29 نشستوں میں سے 27 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 9 میں سے 8 نشستیں مختص کی ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے کل 26 مخصوص نشستوں میں سے 5 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 4 میں سے ایک مخصوص نشستیں مختص کی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے لیے تمام 11 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 3 نشستیں پہلے ہی مختص کی جا چکی ہیں۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے متنبہ کیا ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کیے بغیر نامکمل قومی اسمبلی سے وزیراعظم کا انتخاب غیر آئینی ہوگا۔
ایک بیان میں پارٹی ترجمان نے کہا کہ ’مینڈیٹ چوروں‘ کے ذریعے منتخب ہونے والے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نامکمل قومی اسمبلی میں اسپیکر کا انتخاب کرکے آئین کو پیروں تلے روندا گیا، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کل 23 اراکین کو مخصوص نشستوں کے آئینی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔