
امریکا کے 2 اعلیٰ سطح کے وفود آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے جو اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں کریں گے جس میں پاک-امریکا انسداد دہشت گردی میں تعاون سمیت اہم امور پر بات چیت ہوگی تاہم اس دورے میں عمران خان کی رہائی سے متعلق کوئی بات نہیں ہوگی۔
پہلا وفد امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار برائے جنوب اور وسط ایشیائی امور ایریک مئیر کی قیادت میں 8 سے 10 اپریل تک دورہ کرے گا، اس دوران وفد دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی تعاون بڑھانے سے متعلق امور پر بات چیت کرے گا۔
10 سے 15 اپریل تک دورہ کرنے والا دوسرا وفد امریکی کانگریس اراکین پر مشتمل ہو گا، دورے میں معیشت، تجارت، دفاعی، عسکری تعلقات اور تعلیم جیسے اہم امور ایجنڈے کا حصہ ہوں گے۔
کانگریسی وفد کے دورے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا ہے، امریکی کانگریس رکن جنرل جیک برگمین اور ٹام سوزی وفد کی قیادت کریں گے۔
کانگریسی وفد وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات کرے گا۔
وفد آزاد جموں و کشمیر کا دورہ بھی کرے گا جہاں انہیں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال اور لائن آف کنٹرول پر سیکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی جائے گی جب کہ امریکی وفد کرتارپور راہداری کا دورہ بھی کرے گا۔
خیال رہے کہ امریکی وفود کا دورہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے ساتھ ساتھ حریفوں اور اتحادیوں سمیت درجنوں ممالک پر محصولات عائد کرنے کے اعلان کے بعد ہورہا ہے جس نے عالمی تجارتی جنگ کو مزید تیز کردیا ہے۔
دورے کے منتظمین کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ کانگریس کا وفد پاکستان کی داخلی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا لہذا وفد بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرے گا اور نہ ہی عمران خان کی رہائی کے معاملے پر کوئی بات نہیں کرے گا۔
واضح رہے کہ رواں سالی 26 فروری کو امریکی ارکان کانگریس جو ولسن اور اگست پلگر نے سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو خط لکھ کر زور دیا تھا کہ وہ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کریں۔
جو ولسن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد پوسٹس میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اگست 2023 سے متعدد مقدمات میں گرفتار ہیں، جنہیں وہ ’سیاسی‘ قرار دیتے ہیں۔