چارسال قبل کراچی میں گر کر تباہ ہونے والے پی آئی اے کا طیارہ انسانی غلطی کی وجہ سے تباہ ہواتھا
ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ کی رپورٹ کے مطابق لینڈنگ سے پہلے چارمرتبہ ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ کو لینڈنگ سے روکا تھا، ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ کو بتایا تھا کہ طیارے کی اونچائی بہت زیادہ ہے۔
لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران طیارے کے انجن رن وے سے ٹکرائے، انجن ٹکرانے اور شعلے نکلنے کا ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ کو نہیں بتایا، دونوں انجن رن وے سے ٹکرانے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
انجنوں کو لبریکینٹ آئل فراہم کرنے والا نظام خراب ہوگیا جس سے دونوں انجن بند ہوگئے، انجن بند ہونے سے طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ طیارے کے دونوں انجن بند ہونے سے بجلی کی فراہمی بند ہو گئی جس کے باعث پرواز کا آخری 4 منٹ کا ڈیٹا ریکارڈ نہیں ہوسکا۔
لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران دونوں پائلٹس لینڈنگ کے لیے یکسو نہیں تھے، لینڈنگ کی پہلی کوشش کے وقت طیارے کے لینڈنگ گیر کھلے تھے لیکن عین لینڈنگ کے وقت دونوں میں سے کسی ایک پائلٹ نے لینڈنگ گیر دوبارہ بند کردیے۔
لینڈنگ گیر بند ہونے کے باوجود طیارے نے لینڈنگ کی کوشش کی، پہلی مرتبہ بغیر لینڈنگ گیر کے لینڈنگ کی کوشش کی گئی۔ دونوں پائلٹس اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز میں رابطے اور ہم آہنگی کا فقدان تھا، حادثے کی انتظامی ذمہ داری پی آئی اے اور سی اے اے پر بھی عائد ہوتی ہے۔
پائلٹس کے روزہ رکھ کر طیارہ اڑانے کے بارے میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قوانین واضح نہیں ہیں، پی آئی اے میں فلائٹ ڈیٹا اینالائسس (FDA) پر عمل نہیں ہورہا۔ فلائٹ ڈیٹا اینالائسس نہ ہونے کی وجہ سے دوران پرواز پائلٹس کی غلطیاں نوٹس میں نہیں آتیں۔
واضح رہے کہ 22 مئی 2020 کو پی آئی اے کا طیارہ ایئربس 320 لینڈنگ کی دوسری کوشش کے دوران کراچی ایئرپورٹ کے قریب آبادی ماڈل ٹاون میں گر کر تباہ ہوا تھا۔
حادثے میں 99 مسافروں سمیت 101 افراد جاں بحق ہوئے تھے، 2 مسافر خوش قسمتی سے بچ گئے تھے۔