google.com, pub-3199947851844297, DIRECT, f08c47fec0942fa0 کاروباری اداروں کا بینکوں کو 440 ارب روپے واپس - UrduLead
بدھ , مارچ 12 2025

کاروباری اداروں کا بینکوں کو 440 ارب روپے واپس

رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں لیکویڈیٹی کے بہاؤ میں اضافے کے بعد صرف دو ہفتوں میں نجی سیکٹر نے بینکوں کو 440 ارب روپے ادا کردیئے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 کی آخری سہ ماہی میں دی گئی رقم بینکوں میں واپس آنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو (اے ڈی آر) پر 15 فیصد اضافی ٹیکس کا خدشہ ختم ہوگیا ہے۔

17 سے 31 جنوری کے دوران نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضوں میں 440 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی، جو 13 کھرب 98 ارب روپے سے کم ہو کر 958 ارب روپے رہ گئے۔

نجی شعبے کو دیئے جانے والے قرضوں میں نمایاں اضافے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے 31 دسمبر 2024 تک ان بینکوں پر 15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان تھا، جن کا اے ڈی آر 50 فیصد سے کم ہے۔

بینکاری کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ پالیسی ریٹ میں بڑے پیمانے پر کمی وہ اہم عنصر تھا جس نے نجی شعبے کی طرف لیکویڈیٹی کے بہاؤ کو بڑھایا۔

تاہم، یہ غلط ثابت ہوا کیونکہ جون 2024 میں شرح سود 6 وقفوں میں 1000 بیسز پوائنٹس کمی کے ساتھ 22 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کردی گئی تھی۔

نجی شعبے کے سکڑتے ہوئے قرضے بینکاری کے چند ماہرین کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ کم شرح سود پر قرضوں کی وجہ سے قرضے لینے میں اضافہ ہوگا۔

نجی شعبے نے حکومت پر ایک بار پھر زور دیا ہے کہ زیادہ شرح سود اور ٹیکس، صنعت کاری اور سست معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

سب سے بڑے صنعتی شعبے ٹیکسٹائل ملز مالکان کا دعویٰ ہے کہ بھاری ٹیکسوں اور زیادہ لاگت کی وجہ سے کاروبار کرنے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں 40 اسپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں۔

آزاد ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ زراعت کے شعبے اور بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں منفی نمو ظاہر ہو رہی ہے جو بینکنگ لیکویڈیٹی کی کم کھپت کی عکاسی کرتی ہے۔

17 جنوری تک روایتی بینکوں کے نجی شعبے کے قرضے 722 ارب 60 کروڑ تک جاپہنچے تھے، جو 50 فیصد کمی سے اب 325 ارب روپے رہ گئے ہیں۔

31 جنوری کو اسلامی بینکوں کے قرضے 66 ارب روپے کم ہو کر 559 ارب 50 کروڑ روپے رہ گئے جو 17 جنوری کو 625 ارب 50 کروڑ روپے تھے۔

تاہم اس عرصے کے دوران روایتی بینکوں کی اسلامی شاخوں کی مالیت 23 ارب 50 کروڑ روپے بڑھ کر 73 ارب 50 کروڑ روپے ہوگئی، جب کہ قرض دینے کا حجم پہلے کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا۔

ایک سینئر بینکر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک ڈیزائن کردہ قرض تھا جس کا واحد مقصد ٹیکس سے بچنا تھا، بینکوں نے اپنے اے ڈی آر کو 50 فیصد تک بڑھا کر اپنے اہداف حاصل کیے تاہم حکومت نے بالآخر ان پر ٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 5.5 فیصد کر دیا۔

13 کھرب 98 ارب روپے کا یہ بڑا قرض نجی شعبے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکا اور اس عرصے کے دوران ترقی کی رفتار سست رہی، بعض تجزیہ کاروں نے اس قلیل مدتی قرض کی وجہ سے زیادہ اقتصادی ترقی کی کوئی امید ظاہر نہیں کی، جو سکڑنا شروع ہو گیا ہے۔

بینکر کا مزید کہنا تھا کہ ’نجی شعبے کے لیے اب بھی موقع ہے کیونکہ شرح سود 12 فیصد پر آگئی ہے، تاہم سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور خراب انٹرنیٹ سروسز نئی سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ ہیں۔‘

About Aftab Ahmed

Check Also

عمرایوب اورعلیمہ خان بھی جےآئی ٹی میں طلب

سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے الزام میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے