پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ایک ہی وقت میں بیک ڈور ڈائیلاگ اور حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں چل سکتے ہیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ’ملاقات‘ کی ساری تفصیلات اور مکالموں کا علم ہے۔
انہوں نے ایک مثال دی کہ کسی مسئلے پر خاندان کے کچھ لوگ جمع ہوں اور جاتے جاتے دو لوگ رک کر خاندان کے بڑے کو کہیں کہ ہمیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے اور کھڑے کھڑے آپ کی بات سن لیں تو یہ ملاقات نہیں ہوتی۔
’تاہم، اگر بیرسٹر گوہر صاحب ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اگر علیمہ خان بھی اسے خوش آئند قرار دے رہی ہیں اور عمران خان بھی اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں تو ٹھیک ہے‘۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر نے اسے بیک ڈور پراسیس کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ بیک ڈور پراسیس بھی چلے گا اور فرنٹ ڈور پراسیس بھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ دو دو، تین تین دروازوں کے مذاکرات نہیں چلا کرتے، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہماری بات چیت براہ راست اعلیٰ ترین فوجی سطح پر شروع ہو گئی ہے اور بڑی اطمینان بخش ہے تو ہمارے سامنے جن لوگوں کو بٹھایا ہوا ہے ان کو بتائیں کہ یہ کوشش کرنا اب چھوڑ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی مذاکراتی ٹیم کو بتائیں کہ اب ہمیں وہ دروازہ مل گیا ہے جس کے لیے ہم ایک سال سے کوشش کر رہے تھے اور وہ کھل بھی گیا ہے لہذا اب چھوٹے چھوٹے دروازوں، کھڑکیوں اور روشندانوں میں جھانکنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے بتایا تھا ان کی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی تھی جسے سابق وزیر اعظٖم عمران خان نے خوش آئند قرار دیا ہے۔
بعد ازاں، سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے درمیان ملاقات خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی معاملات کے تناظر میں ہوئی۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ملاقات انسداد دہشت گردی معاملات کے تناظر میں ہوئی، بیرسٹر گوہر نے سیاسی معاملات پر بات کرنے کی کوشش کی، جس پر بیرسٹر گوہر کو بتا دیا گیا کہ سیاسی معاملات پر بات چیت سیاست دانوں سے کریں۔