وفاقی وزارت خزانہ نے پاکستان کی معیشت کو درپیش 8بڑے معاشی خطرات کی نشاندہی کر دی ، ان میں میکرو اکنامک عدم توازن ، بڑھتاہوا قرضہ، خسارے میں جاتی سرکاری کمپنیاں ، ماحولیاتی تنزلی ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ خطرات ، صوبائی مالیاتی ڈسپلن اور گورننس کے چیلنجز شامل ہیں ،
وزارت خزانہ کی رواں مالی سال کی جاری مالیاتی رسک سٹیٹمنٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں افراط زر میں اتار چڑھاؤ رہا ،روپے کی قدر میں خاطر خواہ تنزلی ہوئی ، مہنگائی بڑھنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے ، کرنسی کی قدر میں اضافہ بھی توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث ہے ،قرضوں پر سود کی ادائیگی مالی خسارے میں کمی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ،
وزارت خزانہ نے معاشی بہتری اور استحکام کے لیےتین طرح کی صورتحال کی پیشن گوئی کی ہے ان میں ایک یہ ہےکہ توقع ہے کہ نیٹ وفاقی ریونیو جی ڈی پی کا 6.7فیصد ، وفاقی اخراجات جی ڈی پی کا 9.7فیصد ، جبکہ وفاقی مالی خسارہ جی ڈی پی کے 3فیصد تک رہے گا،
دوسری پروجیکشن کے مطابق نان ٹیکس ریونیو میں 50فیصد کمی ہو سکتی ہے، نیٹ وفاقی ریونیو میں جی ڈی پی کے 5.3فیصد تک کمی ہو سکتی ہے، وفاقی اخراجات میں جی ڈی پی کے 10.6فیصد رہیں گے اور مالی خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے 5.4فیصد تک بڑھے گا،
تیسری پروجیکشن کے مطابق اگر 2026تک اقتصادی شرح نمو کی متوقع سالانہ گروتھ 0.5فیصد سے کم رہتی ہے تو وفاقی ریونیو جی ڈی پی کے لحاظ سے 7.1فیصد ، وفاقی اخراجات 11فیصد اور اور وفاقی مالی خسارہ 3.9فیصد متوقع ہے،
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مجموعی حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے لحاظ سے 60فیصد کی حد سے زیادہ رہا ہے، اس کی وجہ تسلسل سے مالی خسارہ میں اضافہ ہے، بیرونی قرضہ مجموعی حکومتی قرضے کا 40.8فیصد ہے، مختصر المدت قرضے میں اضافے سے ری فنانسنگ چیلنجز بڑھے ہیں اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہوئی ، مالی خسارے میں اضافہ ہوا، جس سے سرمایہ کاروں کےا عتماد میں کمی ہوئی ،
پاکستان ماحولیاتی صورتحال میں ابتری کے لحاظ سے دنیا کے 10سرفہرست ممالک میں آتا ہے ، پاکستان ماحولیاتی ابتری کے لحاظ سے دنیا میں 12ویں نمبر پر ہے اس کےلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔